بشیر بدر کی غزل

    یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو

    یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا ...

    مزید پڑھیے

    اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا

    اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا جس کو گلے لگا لیا وہ دور ہو گیا کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیئے لیکن زمیں سے چاند بہت دور ہو گیا تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی انا! آئینہ بات کرنے پہ مجبور ہو گیا دادی سے ...

    مزید پڑھیے

    مرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے

    مرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے ذرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب ترا نام لکھا ہے ریت پر کوئی لہر آ کے مٹا نہ ...

    مزید پڑھیے

    اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے

    اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے پرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے تمہارے شہر کے سارے دیے تو سو گئے کب کے ہوا سے پوچھنا دہلیز پہ یہ کون جلتا ہے اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ ...

    مزید پڑھیے

    سنوار نوک پلک ابرووں میں خم کر دے

    سنوار نوک پلک ابرووں میں خم کر دے گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی کوئی چراغ کی لو کو ذرا سا کم کر دے کسی نے چوم ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا

    آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں تم نے مرا کانٹوں بھرا ...

    مزید پڑھیے

    کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے

    کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے رات روشن ہو گئی دن بھی سہانے ہو گئے کیوں حویلی کے اجڑنے کا مجھے افسوس ہو سیکڑوں بے گھر پرندوں کے ٹھکانے ہو گئے جاؤ ان کمروں کے آئینے اٹھا کر پھینک دو بے ادب یہ کہہ رہے ہیں ہم پرانے ہو گئے یہ بھی ممکن ہے کہ میں نے اس کو پہچانا نہ ہو اب اسے دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

    ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے وہ دلوں ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

    ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سونے میں ہماری آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے اڑنے دو ...

    مزید پڑھیے

    سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں

    سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں میں جنم جنم سے اسی کا ہوں اسے آج تک یہ پتا نہیں اسے پاک نظروں سے چومنا بھی عبادتوں میں شمار ہے کوئی پھول لاکھ قریب ہو کبھی میں نے اس کو چھوا نہیں یہ خدا کی دین عجیب ہے کہ اسی کا نام نصیب ہے جسے تو نے چاہا وہ مل گیا جسے میں نے چاہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5