یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا ...