بشیر بدر کی غزل

    آہن میں ڈھلتی جائے گی اکیسویں صدی

    آہن میں ڈھلتی جائے گی اکیسویں صدی پھر بھی غزل سنائے گی اکیسویں صدی بغداد دلی ماسکو لندن کے درمیاں بارود بھی بچھائے گی اکیسویں صدی جل کر جو راکھ ہو گئیں دنگوں میں اس برس ان جھگیوں میں آئے گی اکیسویں صدی تہذیب کے لباس اتر جائیں گے جناب ڈالر میں یوں نچائے گی اکیسویں صدی لے جا ...

    مزید پڑھیے

    اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ

    اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ مرے گلاس میں تھوڑی شراب دے جاؤ بہت سے اور بھی گھر ہیں خدا کی بستی میں فقیر کب سے کھڑا ہے جواب دے جاؤ میں زرد پتوں پر شبنم سجا کے لایا ہوں کسی نے مجھ سے کہا تھا حساب دے جاؤ ادب نہیں ہے یہ اخبار کے تراشے ہیں گئے زمانوں کی کوئی کتاب دے جاؤ پھر اس کے ...

    مزید پڑھیے

    اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے

    اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے ہم وہ پیاسے ہیں جو دریاؤں کو ترسائیں گے خواب آئینے ہیں آنکھوں میں لیے پھرتے ہو دھوپ میں چمکیں گے ٹوٹیں گے تو چبھ جائیں گے صبح تک دل کے دریچوں کو کھلا رہنے دو درد گمراہ فرشتے ہیں کہاں جائیں گے نیند کی فاختہ سہمی ہوئی ہے آنکھوں میں تیر یادوں ...

    مزید پڑھیے

    سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں

    سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں رات تیری یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں یوں کسی کی آنکھوں میں صبح تک ابھی تھے ہم جس طرح رہے شبنم پھول ...

    مزید پڑھیے

    میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا

    میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا تمہارا فیصلہ تھا یاد ہوگا بہت سے اجلے اجلے پھول لے کر کوئی تم سے ملا تھا یاد ہوگا بچھی تھیں ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں کوئی آنسو گرا تھا یاد ہوگا اداسی اور بڑھتی جا رہی تھی وہ چہرہ بجھ رہا تھا یاد ہوگا وہ خط پاگل ہوا کے آنچلوں پر کسے تم نے لکھا تھا یاد ...

    مزید پڑھیے

    وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے

    وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے کہاں سے آئی یہ خوشبو یہ گھر کی خوشبو ہے اس اجنبی کے اندھیرے میں کون آیا ہے مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے اسے ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے

    گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے وہ گلابی کٹورے چھلک جائیں گے ہم نے الفاظ کو آئنہ کر دیا چھپنے والے غزل میں چمک جائیں گے دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم تم بھی تھک جاؤ گے ہم بھی تھک جائیں گے رفتہ رفتہ ہر اک زخم بھر جائے گا سب نشانات پھولوں سے ڈھک جائیں گے نام پانی پہ لکھنے سے کیا ...

    مزید پڑھیے

    اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے

    اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے وہ آئنہ ہے تو پھر آئنہ دکھائے مجھے عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے بہت دنوں سے میں ان پتھروں میں پتھر ہوں کوئی تو آئے ذرا دیر ...

    مزید پڑھیے

    دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے

    دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے وہ سادگی نہ کرے کچھ بھی تو ادا ہی لگے وہ بھول پن ہے کہ بے باکی بھی حیا ہی لگے یہ زعفرانی پلوور اسی کا حصہ ہے کوئی جو دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے

    وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے چاند کہتے ہیں کسے خوب سمجھتے ہوں گے اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے میں سمجھتا تھا محبت کی زباں خوشبو ہے پھول سے لوگ اسے خوب سمجھتے ہوں گے دیکھ کر پھول کے اوراق پہ شبنم کچھ لوگ ترا اشکوں بھرا مکتوب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5