بشیر بدر کی غزل

    کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو

    کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو مرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنی نہ اٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گزر ...

    مزید پڑھیے

    بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی

    بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی یہ دنیا دلہن ہے جلائی ہوئی بھری دوپہر کا کھلا پھول ہے پسینے میں لڑکی نہائی ہوئی کرن پھول کی پتیوں میں دبی ہنسی اس کے ہونٹوں پہ آئی ہوئی وہ چہرہ کتابی رہا سامنے بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی اداسی بچھی ہے بڑی دور تک بہاروں کی بیٹی پرائی ہوئی خوشی ہم ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں

    خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں تم چھت پہ نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں اس شہر میں اک لڑکی بالکل ہے غزل جیسی بجلی سی گھٹاؤں میں خوشبو سی اداؤں میں موسم کا اشارہ ہے خوش رہنے دو بچوں کو معصوم محبت ہے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو

    مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو میری طرح تم بھی جھوٹے ہو اک دیوار پہ چاند ٹکا تھا میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو اجلے اجلے پھول کھلے تھے بالکل جیسے تم ہنستے ہو مجھ کو شام بتا دیتی ہے تم کیسے کپڑے پہنے ہو دل کا حال پڑھا چہرے سے ساحل سے لہریں گنتے ہو تم تنہا دنیا سے لڑو گے بچوں سی باتیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے

    یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے ابھی تجھ سے ملتا جلتا کوئی دوسرا کہاں ہے وہی شخص جس پہ اپنے دل و جاں نثار کر دوں وہ اگر خفا نہیں ہے تو ضرور بد گماں ہے کبھی پا کے تجھ کو کھونا کبھی کھو کے تجھ کو پانا یہ جنم جنم کا رشتہ ترے میرے درمیاں ہے مرے ساتھ چلنے والے تجھے کیا ملا سفر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے

    کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے کسی کی آنکھ میں رہ کر سنور گئے ہوتے سنگار دان میں رہتے ہو آئنے کی طرح کسی کے ہاتھ سے گر کر بکھر گئے ہوتے غزل نے بہتے ہوئے پھول چن لیے ورنہ غموں میں ڈوب کر ہم لوگ مر گئے ہوتے عجیب رات تھی کل تم بھی آ کے لوٹ گئے جب آ گئے تھے تو پل بھر ٹھہر گئے ...

    مزید پڑھیے

    ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں

    ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئنے میں اتار لوں میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذن قیام ہو تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار ...

    مزید پڑھیے

    ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم دھو لینا

    ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم دھو لینا کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اس سے لپٹ کے رو لینا اس کے بعد بہت تنہا ہو جیسے جنگل کا رستہ جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اسی کے ہو لینا کچھ تو ریت کی پیاس بجھاؤ جنم جنم کی پیاسی ہے ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پاؤں بھگو لینا میں نے دریا سے سیکھی ...

    مزید پڑھیے

    غزلوں کا ہنر اپنی آنکھوں کو سکھائیں گے

    غزلوں کا ہنر اپنی آنکھوں کو سکھائیں گے روئیں گے بہت لیکن آنسو نہیں آئیں گے کہہ دینا سمندر سے ہم اوس کے موتی ہیں دریا کی طرح تجھ سے ملنے نہیں آئیں گے وہ دھوپ کے چھپر ہوں یا چھاؤں کی دیواریں اب جو بھی اٹھائیں گے مل جل کے اٹھائیں گے جب ساتھ نہ دے کوئی آواز ہمیں دینا ہم پھول سہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو

    وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو اتنا ہی اس کا ساتھ تھا افسوس مت کرو انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت کوئی نہیں ہے بے وفا افسوس مت کرو اس بار تم کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی تھک ہار کے وہ سو گیا افسوس مت کرو دنیا میں اور چاہنے والے بھی ہیں بہت جو ہونا تھا وہ ہو گیا افسوس مت کرو اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5