Baqaullah 'Baqa'

بقا اللہ بقاؔ

  • 1791/2

میر و سودا کے متنازعہ ہم عصرجو دونوں شعرا کی تنقید اور نکتہ چینی کے شکار ہوئے

بقا اللہ بقاؔ کی غزل

    مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے

    مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے بہ رنگ سایہ وجود و عدم برابر ہے نہ کچھ ہے عیش سے بالیدگی نہ غم سے گداز ہمارے کام میں سب نوش و سم برابر ہے چلا ہے قافلہ پر ہم سے نا توانوں کو ہزار گام سے اب اک قدم برابر ہے بہ چشم مردم روشن ضمیر گر پوچھو تو قدر جام مے و جام جم برابر ہے خزاں کے ...

    مزید پڑھیے

    جو جہاں کے آئنہ ہیں دل انہوں کے سادہ ہیں

    جو جہاں کے آئنہ ہیں دل انہوں کے سادہ ہیں دل میں جا دینے کو وہ ہر ایک کے آمادہ ہیں قتل سے عاشق کے تو نے اب تو کھائی ہے قسم آخر اے قاتل یہ باتیں پیش پا افتادہ ہیں کل کے دن جو گرد مے خانے کے پھرتے تھے خراب آج مسجد میں جو دیکھا صاحب سجادہ ہیں بند میں مطلق جو مجھ کو خطرۂ صیاد ہو ہوں ...

    مزید پڑھیے

    آوے جو ناز سے مرا وہ بت سیم بر بہ بر

    آوے جو ناز سے مرا وہ بت سیم بر بہ بر کاہے کو لے پھرے مجھے میرا نصیب در بدر چشم بہ چشم رو بہ رو سینہ بہ سینہ دل بہ دل ساق‌ بہ ساق و لب بہ لب پائے بہ پائے سر بہ سر تم تو رہو ہو مہرباں غیر کے ساتھ اس طرح اور میں پھروں ہوں خوار و زار خانہ بہ خانہ گھر بہ گھر اے بت مہروش کبھی ٹک تو نگاہ ...

    مزید پڑھیے

    دل خوں ہے غم سے اور جگر یک نہ شد دو شد

    دل خوں ہے غم سے اور جگر یک نہ شد دو شد لب خشک ہیں تو چشم ہے تر یک نہ شد دو شد رسوا تو نالہ کر کے ہوئے لیکن اس نے یار دل میں ترے کیا نہ اثر یک نہ شد دو شد اول تو ہم کو طاقت پرواز ہی نہ تھی تس پر بریدہ ہو گئے پر یک نہ شد دو شد پایا نہ ہم نے سود محبت میں یار کی اس پر بھی پہنچتا ہے ضرر یک ...

    مزید پڑھیے

    آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں

    آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں محنتیں خاک میں مل جاتی ہیں صورتیں آبلہ ہائے دل کی خوشۂ تاک میں مل جاتی ہیں صید بسمل کی نگاہیں صیاد تیرے فتراک میں مل جاتی ہیں نگہیں یار کی جوں تار رفو جگر چاک میں مل جاتی ہیں پوپلے زاہدوں کی کھاتے وقت ٹھوڑیاں ناک میں مل جاتی ہیں تھلکیاں دل کی بقاؔ ...

    مزید پڑھیے

    دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا

    دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا پھاڑوں ایسا کہ پھر اس میں نہ رہے تار لگا پہنچی اس بت کو خبر نالۂ تنہائی کی مدعی کون کھڑا تھا سر دیوار لگا مرض عشق تمہارا تو یہ طوفاں ہے کہ میں جس سے مذکور کیا اس کو یہ آزار لگا جس کا ملاح بنا عشق وہ کشتی ڈوبی اس کے کھیوے سے تو بیڑا نہ کوئی پار ...

    مزید پڑھیے

    یہ رخ یار نہیں زلف پریشاں کے تلے

    یہ رخ یار نہیں زلف پریشاں کے تلے ہے نہاں صبح وطن شام غریباں کے تلے کیا کریں سینہ جو ناصح سے چھپاتے نہ پھریں داغ سے داغ ہیں کچھ اپنے گریباں کے تلے آہ کی برق جو سینے میں چمکتی دیکھی طفل اشک آ ہی چھپے دامن مژگاں کے تلے دل میں آتا ہے کروں اے گل خنداں تجھ بن بیٹھ کر گریہ کسی نخل ...

    مزید پڑھیے

    میری گو آہ سے جنگل نہ جلے خشک تو ہو

    میری گو آہ سے جنگل نہ جلے خشک تو ہو اشک کی تفت سے گو جل نہ جلے خشک تو ہو پاک کرتے ہوئے گر اشک مرے دامن کا نالۂ گرم سے آنچل نہ جلے خشک تو ہو نمیٔ اشک کے باعث جو مری آہ سے رات زیر رخ تکیۂ مخمل نہ جلے خشک تو ہو مہروش حسن کی گرمی سے ترے وقت عرق تن پہ گر نیمۂ ململ نہ جلے خشک تو ...

    مزید پڑھیے

    تھے ہم استادہ ترے در پہ ولے بیٹھ گئے

    تھے ہم استادہ ترے در پہ ولے بیٹھ گئے تو نے چاہا تھا کہ ٹالے نہ ٹلے بیٹھ گئے بزم میں شیخ جی اب ہے کہ ہے یاں عیب نہیں فرش پر گر نہ ملی جا تو تلے بیٹھ گئے غیر بد وضع ہیں محفل سے شتاب ان کی اٹھو پاس ایسوں کے تم اے جان بھلے بیٹھ گئے گھر سے نکلا نہ تو اور منتظروں نے تیرے در پہ نالے کیے ...

    مزید پڑھیے

    اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم

    اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم تو کیوں ملے سبو سے قدح اور قدح سے ہم ساقی نہ ہووے پاس تو کب جرعۂ شراب شیشے کے لے گلو سے قدح اور قدح سے ہم باقی رہے نہ بادہ تو اس کے عوض میں آب لے خم کی شست و شو سے قدح اور قدح سے ہم گردش پہ تیری چشم کی بحثے ہے ہم سے یار دعوے کی گفتگو سے قدح اور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3