Baldev Raaj

بلدیو راج

  • 1924

بلدیو راج کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    آج ہے ایثار کا جذبہ جو پروانوں کے پاس

    آج ہے ایثار کا جذبہ جو پروانوں کے پاس تھی کبھی یہ دولت بیدار انسانوں کے پاس عقل ہے اک آستیں کا سانپ فرزانوں کے پاس بے خودی کتنی بڑی دولت ہے دیوانوں کے پاس کس کی ہے دنیا یہ آخر صاحب خانہ ہے کون میزباں دیکھا نہیں کوئی بھی مہمانوں کے پاس عظمت دیوانگی کا شور فرزانوں میں ہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    بہت پچھتاؤ گے تم درد مندوں سے خفا ہو کر

    بہت پچھتاؤ گے تم درد مندوں سے خفا ہو کر کہ گل مرجھا کے رہ جاتا ہے خاروں سے جدا ہو کر کہاں جانا تھا مجھ کو اور کہاں لا کر کیا رسوا نگاہ شوق نے دھوکا دیا ہے رہنما ہو کر ستم کیجے جفا کیجے مگر انصاف سے کہیے یہ ناراضی بھلا زیبا ہے بندے سے خدا ہو کر بہاریں جا رہی تھیں جب خزاں کے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک ذرے سے ہے تابانیٔ شمس و قمر پیدا

    ہر اک ذرے سے ہے تابانیٔ شمس و قمر پیدا ہر اک آئینے سے ہے صورت آئینہ گر پیدا زمانہ بند کر دیتا ہے جس پر اک در عشرت تو اس کے واسطے کرتی ہے فطرت لاکھ در پیدا گداؤں کی نظر میں خاک ہے توقیر سلطانی فسون عشق کر دیتا ہے ذروں میں نظر پیدا نہیں کچھ دور یہ بھی سورما قوموں کی فطرت سے شکستیں ...

    مزید پڑھیے

    اب مری نگاہوں میں اوج ہے نہ پستی ہے

    اب مری نگاہوں میں اوج ہے نہ پستی ہے ایک سیل مدہوشی اک ہجوم مستی ہے اے نگاہ نامحرم عشق کی وہ بستی ہے جس قدر اجڑتی ہے اس قدر ہی بستی ہے عاشقی و محبوبی آئنے کے دو رخ ہیں حسن ایک بادہ ہے عشق ایک مستی ہے جذبۂ عبادت کو رکھ جزا سے بیگانہ ورنہ حق پرستی بھی اک ہوس پرستی ہے دل کی پائمالی ...

    مزید پڑھیے

    بدلا ہوا ہے رنگ گلستاں مرے لیے

    بدلا ہوا ہے رنگ گلستاں مرے لیے خوں رو رہی ہے چشم بہاراں مرے لیے فیض جنون شوق کے قربان جائیے وسعت ہے دو جہان کی زنداں مرے لیے سب اہل دل ہیں تیری نگاہوں سے فیضیاب اب تو کہاں ہے صرف مری جاں مرے لیے میں خود ہی چھوڑ جاؤں گا یہ محفل حیات کیوں ہو رہے ہو اتنے پریشاں مرے لیے وہ زندگی ...

    مزید پڑھیے

تمام