بہت پچھتاؤ گے تم درد مندوں سے خفا ہو کر
بہت پچھتاؤ گے تم درد مندوں سے خفا ہو کر
کہ گل مرجھا کے رہ جاتا ہے خاروں سے جدا ہو کر
کہاں جانا تھا مجھ کو اور کہاں لا کر کیا رسوا
نگاہ شوق نے دھوکا دیا ہے رہنما ہو کر
ستم کیجے جفا کیجے مگر انصاف سے کہیے
یہ ناراضی بھلا زیبا ہے بندے سے خدا ہو کر
بہاریں جا رہی تھیں جب خزاں کے ساتھ گلشن سے
گلوں کی آنکھ میں بھر آئے آنسو التجا ہو کر
زمانہ گر قیامت بھی اٹھاتا ہے اٹھانے دو
مگر اٹھ کر نہ جاؤ میرے پہلو سے خفا ہو کر
خیال دوست خضر راہ ہے دشت محبت میں
جنوں ہم راہ لے جاتا رہا ہے رہنما ہو کر
خدارا رحم کر پیمان الفت باندھنے والے
کہاں جاؤں گا میں آخر ترے غم سے رہا ہو کر
نہ بن جائے تمہاری زندگی کا آسرا کوئی
نہ اتراؤ کسی کی زندگی کا آسرا ہو کر
مجھے طوفان لے جاتا جہاں میرا مقدر تھا
ڈبویا ہے مری کشتی کو تم نے ناخدا ہو کر
ہماری دیکھا دیکھی تم وفاؤں پر نہ آ جانا
زمانے سے ہمیں کیا مل رہا ہے با وفا ہو کر
بیاں کیا حال دل ہو جب محبت کا یہ عالم ہے
شکایت بھی مرے ہونٹوں پہ آتی ہے دعا ہو کر
عجب دستور ہے اے راجؔ دنیائے محبت کا
جفائیں سامنے آئیں وفاؤں کی سزا ہو کر