آج ہے ایثار کا جذبہ جو پروانوں کے پاس

آج ہے ایثار کا جذبہ جو پروانوں کے پاس
تھی کبھی یہ دولت بیدار انسانوں کے پاس


عقل ہے اک آستیں کا سانپ فرزانوں کے پاس
بے خودی کتنی بڑی دولت ہے دیوانوں کے پاس


کس کی ہے دنیا یہ آخر صاحب خانہ ہے کون
میزباں دیکھا نہیں کوئی بھی مہمانوں کے پاس


عظمت دیوانگی کا شور فرزانوں میں ہے
ہے غنیمت یہ بھی رہ جائے جو دیوانوں کے پاس


شمع روشن ہو گئی آ جاؤ جلنے کے لیے
یہ خبر جاتا ہے لے کر کون پروانوں کے پاس


گاہے آبادی کے سینے تک چلے آتے ہیں دشت
گاہے آبادی پہنچ جاتی ہے ویرانوں کے پاس


اشک حسرت سوز غم درد محبت داغ دل
کیا نہیں سب کچھ ہے تیرے خستہ سامانوں کے پاس


تم نہ گر آتے تو کھنچ جاتے صنم خانے وہیں
تم نے خود توہین کی آ کر صنم خانوں کے پاس


ناخدا کشتی کے رخ کو موڑ لنگر کاٹ دے
مجھ کو ساحل سا نظر آتا ہے طوفانوں کے پاس


دیکھیں اب بیگانے کرتے ہیں اشارہ کس طرف
مجھ کو اپنوں نے تو پہنچایا ہے بیگانوں کے پاس


راجؔ جانے کس طرح کرتے ہیں سجدے برہمن
میں تو بن جاتا ہوں بت جا کر صنم خانوں کے پاس