ہر اک ذرے سے ہے تابانیٔ شمس و قمر پیدا
ہر اک ذرے سے ہے تابانیٔ شمس و قمر پیدا
ہر اک آئینے سے ہے صورت آئینہ گر پیدا
زمانہ بند کر دیتا ہے جس پر اک در عشرت
تو اس کے واسطے کرتی ہے فطرت لاکھ در پیدا
گداؤں کی نظر میں خاک ہے توقیر سلطانی
فسون عشق کر دیتا ہے ذروں میں نظر پیدا
نہیں کچھ دور یہ بھی سورما قوموں کی فطرت سے
شکستیں کھا کے بھی کر لیتے ہیں فتح و ظفر پیدا
جنوں کو چاہئیں بے خوف و عالی ظرف دیوانے
ہر اک دیوار میں زنداں کی ہو سکتے ہیں در پیدا
حقیقت میں خزاں تعمیر ہے فصل بہاری کی
کہ درد سر سے ہوتی ہے دوائے درد سر پیدا