کب تصور یار گل رخسار کا فعل عبث
کب تصور یار گل رخسار کا فعل عبث عشق ہے اس گلشن و گل زار کا فعل عبث نکہت گیسوئے خوباں نے کیا بے قدر اسے اب ہے سودا نافۂ تاتار کا فعل عبث رشتۂ الفت رگ جاں میں بتوں کا پڑ گیا اب بظاہر شغل ہے زنار کا فعل عبث آرزو مند شہادت عاشق صادق ہوئے غیر کو ڈر ہے تری تلوار کا فعل عبث جب دل سنگیں ...