ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے
ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے حسرت و آرزوئے جلوۂ جاناں میں رہے خوں ہے وہ جس سے کہ ہو دامن قاتل رنگیں خون فاسد ہے جو خالی سر مژگاں میں رہے ہم نے مصنوع سے صانع کی حقیقت پائی بے سبب ہم نہیں نظارۂ خوباں میں رہے صبح خورشید کو دیکھا ہوس عارض میں شام سے روشنیٔ شمع شبستاں میں ...