Azra Parveen

عذرا پروین

احتجاج اور جدید سماجی مسائل کو اپنے شعری اظہار میں شامل کرنے والی شاعرہ ۔

A poet to make space for resistance and current social issues.

عذرا پروین کی غزل

    میں تو پاگل ہوں مری آنکھ کے آنسو پہ نہ جا

    میں تو پاگل ہوں مری آنکھ کے آنسو پہ نہ جا عشق بس خواب ہے اس خواب کے جادو پہ نہ جا اب پلٹ کر نہیں شہروں کو میں جانے والی مرے جنگل تو پریشانی و ہا ہو پہ نہ جا میں ترا رقص ہوں اس رقص کو پورا کر لے تھک کے یوں ٹوٹ کے گرتے ہوئے گھنگھرو پہ نہ جا گرمیٔ رقص کے تھمتے ہی تھمیں گے ہم سب حصۂ رقص ...

    مزید پڑھیے

    سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی

    سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی بپھر کے میری لہر لہر انگارہ تھی کل تری خواہش کب اتنی بنجاری تھی تو سرتاپا آنکھ تھا میں نظارہ تھی میں کہ جنوں کے پروں پہ اڑتی خوشبو تھی رنگ رنگ کے آکار میں ڈھلتا پارہ تھی میں دھرتی ہوں اسے یہی بس یاد رہا بھول گیا میں اور بھی اک سیارہ تھی تو ہی تو ...

    مزید پڑھیے

    بہر چراغ خود کو جلانے والی میں

    بہر چراغ خود کو جلانے والی میں دھوئیں میں اپنے کرب چھپانے والی میں ہریالی درکار اڑانیں بھی پیاری کدھر چلی میں کدھر تھی جانے والی میں دھنک رتوں کے جال بچھانے والا تو الجھ کے اپنا آپ گنوانے والی میں میری چپ کا جشن منانے والا تو تلواروں سے کاٹ چرانے والی میں پونجی سن کر سمٹ نہ ...

    مزید پڑھیے

    بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا

    بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا دل کے چوتھے آسماں پر کون شب روتا رہا کیا عجب آواز تھی سوتے شکاری جاگ اٹھے پر وہ اک گھائل پرندہ جاں بہ لب روتا رہا جاتے جاتے پھر دسمبر نے کہا کچھ مانگ لے خالی آنکھوں سے مگر دل بے طلب روتا رہا میں نے پھر اپریل کے ہاتھوں سے دل کو چھو لیا اور دل ...

    مزید پڑھیے

    اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا

    اب اپنی چیخ بھی کیا اپنی بے زبانی کیا محض اسیروں کی محصور زندگانی کیا رتیں جو تو نے اتاری ہیں خوب ہوں گی مگر ببول سیج پہ سجتی ہے گل فشانی کیا ہے جسم ایک تضادات کے کئی خانے کرے گا پر انہیں اک رنگ آسمانی کیا ہزار کروٹیں جھنکار ہی سناتی ہیں یوں جھٹپٹانے سے زنجیر ہوگی پانی ...

    مزید پڑھیے

    مری خود سے محبت بڑھ گئی ہے

    مری خود سے محبت بڑھ گئی ہے بہت پنجرے سے وحشت بڑھ گئی ہے ہیں میرے خواب سارے موم کے بت مرے سورج تمازت بڑھ گئی ہے ہمارے بیچ بیداری ہی غم تھی بس اب نیندوں کی حاجت بڑھ گئی ہے یہ کیا بازار کیسے لوگ یوسف ادھر کیوں تیری رغبت بڑھ گئی ہے سنائی دیتا ہے سب ان کہا بھی تری دھن میں سماعت بڑھ ...

    مزید پڑھیے

    آسماں ساحل سمندر اور میں

    آسماں ساحل سمندر اور میں کھلتا پھر یادوں کا دفتر اور میں چار سمتیں آئینہ سی ہر طرف تم کو کھو دینے کا منظر اور میں میرا اجلا پن نئے انداز میں تیری بخشش میلی چادر اور میں ایک مورت میں تجربے نت نئے کتنے بے کل میرا آذر اور میں کھلتے ہیں اسرار عجب آلام میں بند ہوتا وہ ہر اک در اور ...

    مزید پڑھیے

    اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی

    اب آنکھ بھی مشاق ہوئی زیر و زبر کی خواہش تو تری گھاٹ کی رہ پائی نہ گھر کی رنگ اپنے جو تھے بھر بھی کہاں پائے کبھی ہم ہم نے تو سدا رد عمل میں ہی بسر کی جب صرف ترے گل میں مرا حصہ نظر ہے پھر سوچ ہے کیا درد یہ تاخیر نظر کی یہ کوفے کی گلیاں ہیں کہ یہ میری رگیں بھی ہر سمت سے چبھتی ہے انی ...

    مزید پڑھیے