مری خود سے محبت بڑھ گئی ہے
مری خود سے محبت بڑھ گئی ہے
بہت پنجرے سے وحشت بڑھ گئی ہے
ہیں میرے خواب سارے موم کے بت
مرے سورج تمازت بڑھ گئی ہے
ہمارے بیچ بیداری ہی غم تھی
بس اب نیندوں کی حاجت بڑھ گئی ہے
یہ کیا بازار کیسے لوگ یوسف
ادھر کیوں تیری رغبت بڑھ گئی ہے
سنائی دیتا ہے سب ان کہا بھی
تری دھن میں سماعت بڑھ گئی ہے
کبھی نیندوں سے میں وحشت زدہ تھی
پر اب خوابوں سے راحت بڑھ گئی ہے
میں بچنا چاہتی ہوں اپنی جاں سے
مری مجھ سے محبت بڑھ گئی ہے
نشہ سورج کو ہو جائے تو کیا ہو
مری حیرت پہ حیرت بڑھ گئی ہے