عزم شاکری کی غزل

    یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں

    یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر اے صاحب جمال ترا آئنا ہوں میں یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجئے اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    خون آنسو بن گیا آنکھوں میں بھر جانے کے بعد

    خون آنسو بن گیا آنکھوں میں بھر جانے کے بعد آپ آئے تو مگر طوفاں گزر جانے کے بعد چاند کا دکھ بانٹنے نکلے ہیں اب اہل وفا روشنی کا سارا شیرازہ بکھر جانے کے بعد ہوش کیا آیا مسلسل جل رہا ہوں ہجر میں اک سنہری رات کا نشہ اتر جانے کے بعد زخم جو تم نے دیا وہ اس لیے رکھا ہرا زندگی میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    چاند سا چہرہ کچھ اتنا بے باک ہوا

    چاند سا چہرہ کچھ اتنا بے باک ہوا ایک ہی پل میں شب کا دامن چاک ہوا گھر کے اندر سیدھے سچے لوگ ملے بیٹا پردیسی ہو کر چالاک ہوا دروازوں کی راتیں چوکیدار ہوئیں اور اجالا جسموں کی پوشاک ہوا جو آیا اک داغ لگا کر چلا گیا اس نے چھوا تو میرا دامن پاک ہوا موسم نے آواز لگائی خوشبو کو تتلی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب حالت ہے جسم و جاں کی ہزار پہلو بدل رہا ہوں

    عجیب حالت ہے جسم و جاں کی ہزار پہلو بدل رہا ہوں وہ میرے اندر اتر گیا ہے میں خود سے باہر نکل رہا ہوں بہت سے لوگوں میں پاؤں ہو کر بھی چلنے پھرنے کا دم نہیں ہے مرے خدا کا کرم ہے مجھ پر میں اپنے پیروں سے چل رہا ہوں میں کتنے اشعار لکھ کے کاغذ پہ پھاڑ دیتا ہوں بے خودی میں مجھے پتہ ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    دروازۂ ہستی سے نہ املاک سے نکلا

    دروازۂ ہستی سے نہ املاک سے نکلا پیغام وفا خوشبوئے ادراک سے نکلا پھر آج کریدی گئی وہ خاک نشیمن پھر گوہر مقصود اسی خاک سے نکلا ہر بار مجھے میرے مقدر نے صدا دی جب بھی کوئی تارہ در افلاک سے نکلا اس بار تو مجنوں کا بھرم بھی نہیں رکھا یوں میرا جنوں پیرہن چاک سے نکلا دنیا کی زبانوں ...

    مزید پڑھیے

    جتنا تیرا حکم تھا اتنی سنواری زندگی

    جتنا تیرا حکم تھا اتنی سنواری زندگی اپنی مرضی سے کہاں ہم نے گزاری زندگی میرے اندر اک نیا غم روز رکھ جاتا ہے کون رفتہ رفتہ ہو رہی ہے اور بھاری زندگی روح کی تسکین کے سارے دریچے کھل گئے درد کے پہلو میں جب آئی ہماری زندگی صرف تھی خانہ بدوشی یا محبت کا جنوں ہجرتیں کرتا رہا اک شخص ...

    مزید پڑھیے

    چاہتا یہ ہوں کہ بے نام و نشاں ہو جاؤں

    چاہتا یہ ہوں کہ بے نام و نشاں ہو جاؤں شمع کی طرح جلوں اور دھواں ہو جاؤں پہلے دہلیز پہ روشن کروں آنکھوں کے چراغ اور پھر خود کسی پردے میں نہاں ہو جاؤں توڑ کر پھینک دوں یہ فرقہ پرستی کے محل اور پیشانی پہ سجدے کا نشاں ہو جاؤں دل سے پھر درد مہکنے کی صدائیں اٹھیں کاش ایسا ہو میں تیری ...

    مزید پڑھیے

    دریدہ پیرہنوں میں شمار ہم بھی ہیں

    دریدہ پیرہنوں میں شمار ہم بھی ہیں بہت دنوں سے انا کے شکار ہم بھی ہیں فقط تمہیں کو نہیں عشق میں یہ در بدری تمہاری چاہ میں گرد و غبار ہم بھی ہیں چڑھی جو دھوپ تو ہوش و حواس کھو بیٹھے جو کہہ رہے تھے شجر سایہ دار ہم بھی ہیں بلندیوں کے نشاں تک نہ چھو سکے وہ لوگ جنہیں گماں تھا ہوا پہ ...

    مزید پڑھیے

    تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم

    تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم خواب تم دیکھو گے اور تعبیر بن جائیں گے ہم اب کے یہ سوچا ہے گر آزاد تم نے کر دیا خود ہی اپنے پاؤں کی زنجیر بن جائیں گے ہم آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں بے بسی کی داستاں لگ رہا ہے درد کی تصویر بن جائیں گے ہم لکھ نہ پائے جو کسی کی نیم باز آنکھوں کا راز وہ ...

    مزید پڑھیے

    اگر دشت طلب سے دشت امکانی میں آ جاتے

    اگر دشت طلب سے دشت امکانی میں آ جاتے محبت کرنے والے دل پریشانی میں آ جاتے حصار صبر سے جس روز میں باہر نکل آتا سمندر خود مری آنکھوں کی ویرانی میں آ جاتے اگر سائے سے جل جانے کا اتنا خوف تھا تو پھر سحر ہوتے ہی سورج کی نگہبانی میں آ جاتے جنوں کی عظمتوں سے آشنائی ہی نہ تھی ورنہ جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3