عزم شاکری کی غزل

    خاک اڑاتے ہوئے یہ معرکہ سر کرنا ہے

    خاک اڑاتے ہوئے یہ معرکہ سر کرنا ہے اک نہ اک دن ہمیں اس دشت کو گھر کرنا ہے یہ جو دیوار اندھیروں نے اٹھا رکھی ہے میرا مقصد اسی دیوار میں در کرنا ہے اس لیے سینچتا رہتا ہوں میں اشکوں سے اسے غم کے پودے کو کسی روز شجر کرنا ہے تیری یادوں کا سہارا بھی نہیں ہے منظور عمر بھر ہم کو اکیلے ہی ...

    مزید پڑھیے

    سکوت اس کا ہے صبر جمیل کی صورت

    سکوت اس کا ہے صبر جمیل کی صورت میں جس کے لب پہ تھا سحر طویل کی صورت کسی کو میری ضرورت نہیں سو بے مصرف گڑا ہوا ہوں کسی گھر میں کیل کی صورت میں رہتا خیمۂ جاں اب کہاں یہ نسب کروں چٹخ رہا ہے بدن خشک جھیل کی صورت اتر گیا ہے پیمبر کوئی مرے اندر ٹھہر گیا ہوں میں دریائے نیل کی صورت

    مزید پڑھیے

    اپنے دکھ درد کا افسانہ بنا لایا ہوں

    اپنے دکھ درد کا افسانہ بنا لایا ہوں ایک اک زخم کو چہرے پہ سجا لایا ہوں دیکھ چہرے کی عبارت کو کھرچنے کے لیے اپنے ناخن ذرا کچھ اور بڑھا لایا ہوں بے وفا لوٹ کے آ دیکھ مرا جذبۂ عشق آنسوؤں سے تری تصویر بنا لایا ہوں میں نے اک شہر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا لیکن اس شہر کو آنکھوں میں بسا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3