اگر دشت طلب سے دشت امکانی میں آ جاتے

اگر دشت طلب سے دشت امکانی میں آ جاتے
محبت کرنے والے دل پریشانی میں آ جاتے


حصار صبر سے جس روز میں باہر نکل آتا
سمندر خود مری آنکھوں کی ویرانی میں آ جاتے


اگر سائے سے جل جانے کا اتنا خوف تھا تو پھر
سحر ہوتے ہی سورج کی نگہبانی میں آ جاتے


جنوں کی عظمتوں سے آشنائی ہی نہ تھی ورنہ
جو تھے اہل خرد سب چاک دامانی میں آ جاتے


کسی زردار کی یوں ناز برداری سے بہتر تھا
کسی اجڑے ہوئے دل کی بیابانی میں آ جاتے