Aziz Qaisi

عزیز قیسی

ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں شامل/ اپنی جذباتی شدت کے لئے معروف

One of the most prominent progressive poets / known for his pungent intensity

عزیز قیسی کی نظم

    چور بازار

    کاٹھ کے بیل مرد، شیشے کی پتلیاں عورتیں، پسینے کی بوندیاں، گل مہک شمیم بدن چاک دل زخم جیب و پیراہن کار، لاری، کواڑ آنکھیں، فن، لعل و الماس آہن و فولاد قہقہے، چہچہے، فغاں، فریاد سوئی، ہاتھی، اناتھ، بچے، دل تشنگی، تلخیاں، تجلی، دید کون سی آس، کون سی امید کون سی جنس چاہئے تجھ ...

    مزید پڑھیے

    تلازم

    تعلق مجھ میں تم میں کیا ہے تم مانو نہ مانو تم اسے ٹھکراؤ یا جھٹلاؤ لیکن یہ حقیقت ہے تمہیں میری ضرورت ہے بہت خوش دید ہیں آنکھیں تمہاری خوش نظر بھی ہیں مگر کیا اپنی آنکھوں سے کبھی تم اپنی آنکھیں دیکھ سکتی ہو

    مزید پڑھیے

    نئے لوگ

    وہ اب کے آئے تو سچ ان کے ساتھ تھا لیکن عجیب طرح کا بے درد سچ تھا کہتے تھے تمہارا جھوٹ ہے ننگا یہی تو اک سچ ہے ہم ان سے کہہ نہ سکے ہمارے اذن پہ جو قصر و بام اگاتا تھا وہ جن ہمیں میں تھا وہ مر چکا ہے ہم لیکن جئیں تو کیسے جئیں اور مریں تو کیسے مریں کہ تن برہنہ پڑے ہیں نہ جانے کون سا ہے دشت ...

    مزید پڑھیے

    کنفشن

    بس اتنی روداد ہے میری عشق میں خانہ خراب ہوا میں ان کی آنکھوں کا تھا اشارہ وقف جام و شراب ہوا میں ظلمت شام الم کم کرنے اپنے ہی گھر میں آگ لگا دی میں نے کفر جنوں کے ہاتھوں مملکت کونین گنوا دی درس وفا کو شہرت دے دی محفل محفل غزل سنا کر زخموں کے گلدستے بیچے گلی گلی آواز لگا کر دیس ...

    مزید پڑھیے

    بین العدمین

    یہ تضاد جان و جسد جسے تو وصال کہہ لے فراق میں تو نشاط کہہ لے مراق میں تو رواق کہہ لے کہ بحر و بر میں مذاق کہہ لوں کہ خیر و شر تیرے میرے کہنے میں کچھ نہیں کہ ترا یقین مرا گماں کہ مرا گمان ترا یقیں ترے درک و ہوش و حواس کی مرے وجد و وہم و قیاس کی یہی ایک پل تو اساس ہے یہی ایک پل ترے پاس ...

    مزید پڑھیے

    عہد نامۂ امروز

    اور پھر یوں ہوا دن کا اگلا پہر سبز زیتون کی چھاؤں میں کاٹ کر ابن آدم اٹھا اپنے اک ہاتھ میں سانپ اور دوسرے ہاتھ میں اک ممولا لیے عرش کی سمت جاتے ہوئے مڑ کے وادی کے لوگوں سے اس نے کہا ''مجھ پہ ایمان لاؤ خدا مر چکا ہے یہ افلاک و آفاق کا بار اب میرے شانوں پہ ہے مہر و ماہ و کواکب سبھی میرے ...

    مزید پڑھیے

    کاواک

    سب آنکھیں ٹانگوں میں جڑی ہیں ریڑھ کی ہڈی کے منکوں میں کان لگے ہیں ناف کے اوپر روئیں روئیں میں ایک زباں ہے پتلونیں ساری آوازیں سن لیتی ہیں دو پتلونیں جھگڑ رہی ہیں ''اتنی قیمت کیوں لیتی ہو تم میں ایسی کیا خوبی ہے'' کیسے گاہک ہو تم آخر مول بدن کا دے سکتے ہو پتی ورتا کا مول تمہارے پاس ...

    مزید پڑھیے

    صدائے گنبد‌‌ بے روزن و در

    کیسی آواز ہے کوئی کہتا ہے یہ دشت موجود‌‌ و مشہور و موہوم بس حد ادراک و احساس و آواز تک ہی نہیں چشم و دل کا یہ طائر جسے سیر پرواز سمجھے ہو مجبور ہے مشت پر سر بریدہ و پابند ہی اس کا سرمایہ ہے جس پہ مغرور ہے تا بہ حد خرد تا بہ حد جنوں جو بھی ہے ہیچ و بے مایہ ہے کیا غرض اس سے یہ کیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    رفتگاں

    تم یہاں سو جاؤ تم کو یہ جگہ بھی گر نہ ملتی تم گلہ ہم سے نہ کرتے ہم تمہارے ساتھ کچھ مٹی دیے جاتے ہیں اسی مٹی سے اب ہم رنگ ہو جاؤ یہ سناٹا تمہارے ساتھ ہے اب اس سے ہم آہنگ ہو جاؤ تمہارے چاند سورج مر چکے ہیں تمہاری روشنی ظلمت امید و ناامیدی ناؤ کاغذ کی گھروندے ریت کے بچپن جوانی، عمر کا ...

    مزید پڑھیے

    ایک منظر، ایک عالم

    دن ڈھلے مندروں کے کلس مسجدوں کے منارے گھروں کی چھتیں سونے چاندی کے پانی سے دھلنے لگے قلۂ کوہ سے چشم نظارہ لیکن بڑی دور تک پگھلے سونے کی چادر کے نیچے تڑپتا ہوا گہری ظلمت کا ایک بحر ذخار بھی دیکھتی رہ گئی کیسا منظر ہے یہ میں ابھی عمر کے ڈھلتے سورج کی دنیا نہیں پھر بھی میرے سنہرے دو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3