اظہرنقوی کی غزل

    شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں

    شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں وہ کھلیں تو ہم سے راز دشت وحشت کچھ کھلے لوٹ کر کچھ لوگ آئے ہیں مگر خاموش ہیں ہو گیا غرقاب سورج اور پھر اب اس کے بعد ساحلوں پر ریت اڑتی ہے بھنور خاموش ہیں منزلوں کے خواب دے کر ہم یہاں لائے گئے اب یہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    در پیش نہیں نقل مکانی کئی دن سے

    در پیش نہیں نقل مکانی کئی دن سے آئی نہ طبیعت میں روانی کئی دن سے پھر ریت کے دریا پہ کوئی پیاسا مسافر لکھتا ہے وہی ایک کہانی کئی دن سے دشمن کا کنارے پہ بڑا سخت ہے پہرا آیا نہ مرے شہر میں پانی کئی دن سے سونپے تھے کہاں دھوپ کے موسم کو گھنے پیڑ میں ڈھونڈ رہا ہوں وہ نشانی کئی دن ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے پر کوئی امکان ہو بھی سکتا ہے

    نہیں ہے پر کوئی امکان ہو بھی سکتا ہے وہ ایک شب مرا مہمان ہو بھی سکتا ہے عجب نہیں کہ بچھڑنے کا فیصلہ کر لے اگر یہ دل ہے تو نادان ہو بھی سکتا ہے محبتوں میں تو سود و زیاں کو مت سوچو محبتوں میں تو نقصان ہو بھی سکتا ہے بہت گراں ہے جدائی مگر جو ہونا ہو تو پھر یہ فیصلہ آسان ہو بھی سکتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2