اظہرنقوی کی غزل

    رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر

    رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر وہ جو رہتا تھا مرے ساتھ مری جاں ہو کر جانے کس شوخ کے آنچل نے شرارت کی ہے چاند پھرتا ہے ستاروں میں پریشاں ہو کر آتے جاتے ہوئے دستک کا تکلف کیسا اپنے گھر میں بھی کوئی آتا ہے مہماں ہو کر اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر کتنا گمنام ہوا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ

    کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ نئی موجوں میں رہتا ہے پرانے پانیوں کا دکھ کہیں مدت ہوئی اس کو گنوایا تھا مگر اب تک مری آنکھوں میں ہے ان بے سر و سامانیوں کا دکھ تو کیا تو بھی مری اجڑی ہوئی بستی سے گزرا ہے تو کیا تو نے بھی دیکھا ہے مری ویرانیوں کا دکھ شکست غم کے لمحوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں

    کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں ہم جو اتنی رات گئے تک گھر سے باہر رہتے ہیں پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں جب تک رہتے ہیں آنگن میں ہنگامہ تنہائی کے خاموشی کے سائے بام و در سے باہر رہتے ہیں جب سے بے چہروں کی ...

    مزید پڑھیے

    دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے

    دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے سرد ہوا یا ٹوٹا تاؤ پوری رات ادھورا چاند میرے آنگن کی مٹی کو جانے کون بھگو جاتا ہے اک اک کر کے دھوپ کے سارے سرخ پرندے مر جاتے ہیں ریت کے زرد سمندر پر جب سورج پاؤں دھو جاتا ہے تجھ سے بچھڑ کر ...

    مزید پڑھیے

    افسردگیٔ درد فراقت ہے سحر تک

    افسردگیٔ درد فراقت ہے سحر تک یہ شام تو اک شام قیامت ہے سحر تک کوئی تو اندھیروں میں اجالوں کا سبب ہو مانا کہ چراغوں کی حقیقت ہے سحر تک اب ہم پہ جو آئی تو کسی طور نہ گزری سنتے تھے شب غم کی طوالت ہے سحر تک پھر راکھ بھی ہو جائیں تو ہو جائیں بلا سے آنکھوں کے حوالوں کی ضرورت ہے سحر ...

    مزید پڑھیے

    اتر کر پانیوں میں چاند محو رقص رہتا ہے

    اتر کر پانیوں میں چاند محو رقص رہتا ہے مری آنکھوں میں کچھ اس طور کوئی شخص رہتا ہے عجب حیرت ہے اکثر دیکھتا ہے میرے چہرے کو یہ کس نا آشنا کا آئنے میں عکس رہتا ہے مری بستی کا کوئی گھر بھی گھر جیسا نہیں لگتا کہیں تعمیر بام و در میں کوئی نقص رہتا ہے جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں

    ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں خوف کے شہر میں رہتے ہیں سو ڈر کاٹتے ہیں پہلے بھر لیتے ہیں کچھ رنگ تمہارے اس میں اور پھر ہم اسی تصویر کا سر کاٹتے ہیں خواب مٹھی میں لیے پھرتے ہیں صحرا صحرا ہم وہی لوگ ہیں جو دھوپ کے پر کاٹتے ہیں سونپ کر اس کو ترے درد کے سارے موسم پھر اسی لمحے ...

    مزید پڑھیے

    گریۂ شب کی شہادت کے لئے جاگتے ہیں

    گریۂ شب کی شہادت کے لئے جاگتے ہیں یہ ستارے کوئی ساعت کے لئے جاگتے ہیں خوف ایسا ہے کہ ہم بند مکانوں میں بھی سونے والوں کی حفاظت کے لئے جاگتے ہیں عمر گزری ہے تری سجدہ وری میں لیکن آج ہم اپنی عبادت کے لئے جاگتے ہیں پہلے ہم کرتے ہیں تصویر میں عریاں ترا خواب اور پھر اس کی حفاظت کے ...

    مزید پڑھیے

    گرداب ریگ جان سے موج سراب تک

    گرداب ریگ جان سے موج سراب تک زندہ ہے تو لہو میں بس اک اضطراب تک اک میں کہ ایک غم کا تقاضا نہ کر سکا اک وہ کہ اس نے مانگ لئے اپنے خواب تک تو لفظ لفظ لذت ہجراں میں ہے ابھی ہم آ گئے ہیں ہجرت غم کے نصاب تک جو زیر‌ موج آب رواں ہے خروج آب آ جائے ایک روز اگر سطح آب تک ملتا کہیں سواد ...

    مزید پڑھیے

    چاک دامان قبا داغ جنوں ساز بہت

    چاک دامان قبا داغ جنوں ساز بہت ہم نے پائے ہیں در یار سے اعزاز بہت ہم سے پوچھو کہ غم فرقت یاراں کیا ہے ہم نے دیکھے ہیں شب ہجر کے انداز بہت رات بھر چاند سے ہوتی رہیں تیری باتیں رات کھولے ہیں ستاروں نے ترے راز بہت آج کیوں پہلی سی کچھ وحشت دل کوئی نہیں آج مدھم ہے شب غم ترا آغاز ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2