اظہرنقوی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر

    رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر وہ جو رہتا تھا مرے ساتھ مری جاں ہو کر جانے کس شوخ کے آنچل نے شرارت کی ہے چاند پھرتا ہے ستاروں میں پریشاں ہو کر آتے جاتے ہوئے دستک کا تکلف کیسا اپنے گھر میں بھی کوئی آتا ہے مہماں ہو کر اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر کتنا گمنام ہوا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ

    کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ نئی موجوں میں رہتا ہے پرانے پانیوں کا دکھ کہیں مدت ہوئی اس کو گنوایا تھا مگر اب تک مری آنکھوں میں ہے ان بے سر و سامانیوں کا دکھ تو کیا تو بھی مری اجڑی ہوئی بستی سے گزرا ہے تو کیا تو نے بھی دیکھا ہے مری ویرانیوں کا دکھ شکست غم کے لمحوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں

    کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں ہم جو اتنی رات گئے تک گھر سے باہر رہتے ہیں پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں جب تک رہتے ہیں آنگن میں ہنگامہ تنہائی کے خاموشی کے سائے بام و در سے باہر رہتے ہیں جب سے بے چہروں کی ...

    مزید پڑھیے

    دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے

    دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے سرد ہوا یا ٹوٹا تاؤ پوری رات ادھورا چاند میرے آنگن کی مٹی کو جانے کون بھگو جاتا ہے اک اک کر کے دھوپ کے سارے سرخ پرندے مر جاتے ہیں ریت کے زرد سمندر پر جب سورج پاؤں دھو جاتا ہے تجھ سے بچھڑ کر ...

    مزید پڑھیے

    افسردگیٔ درد فراقت ہے سحر تک

    افسردگیٔ درد فراقت ہے سحر تک یہ شام تو اک شام قیامت ہے سحر تک کوئی تو اندھیروں میں اجالوں کا سبب ہو مانا کہ چراغوں کی حقیقت ہے سحر تک اب ہم پہ جو آئی تو کسی طور نہ گزری سنتے تھے شب غم کی طوالت ہے سحر تک پھر راکھ بھی ہو جائیں تو ہو جائیں بلا سے آنکھوں کے حوالوں کی ضرورت ہے سحر ...

    مزید پڑھیے

تمام