Atiiqullah

عتیق اللہ

ممتاز نقاد اور شاعر، دہلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے

Prominent critic and poet, worked as professor of Urdu in Delhi University

عتیق اللہ کی غزل

    دل کے نزدیک تو سایا بھی نہیں ہے کوئی

    دل کے نزدیک تو سایا بھی نہیں ہے کوئی اس خرابے میں تو آیا بھی نہیں ہے کوئی ہر سراغ اپنی جگہ ریت میں معدوم ہوا دور تک نقش کف پا بھی نہیں ہے کوئی اپنے سوکھے ہوئے گلدان کا غم ہے مجھ کو آنکھ میں اشک کا قطرہ بھی نہیں ہے کوئی دور سے ایک ہیولیٰ سا نظر آتا ہے پاس سے دیکھو تو ملتا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مرے سپرد کہاں وہ خزانہ کرتا تھا

    مرے سپرد کہاں وہ خزانہ کرتا تھا سلوک کرتا تھا اور غائبانہ کرتا تھا عجیب اس کی طلب تھی عجب تھا اسپ سوار کہ ملک و مال کی پروا ذرا نہ کرتا تھا شعار زیست ہنر تھا سو ہم نہ جان سکے جو کام ہم نے کیا دوسرا نہ کرتا تھا سفر گرفتہ رہے کشتگان نان و نمک ہمارے حق میں کوئی فیصلہ نہ کرتا ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے بے زارو نہ یوں سنگ سے مارو مجھ کو

    مجھ سے بے زارو نہ یوں سنگ سے مارو مجھ کو اس سے بہتر ہے کہ پتھر ہی بنا دو مجھ کو کیا وہی ہوں میں ابھی جس کی طلب تھی تم کو مجھ کو ڈھونڈو مرے پہچاننے والو مجھ کو وقت تیزاب کی مانند جھلس دے نہ کہیں اپنے خاکستر ماضی میں دبا دو مجھ کو مجھ سے شامل ہیں کئی خواب گزیں سناٹے اور نزدیک ذرا آ ...

    مزید پڑھیے

    فرار کے لیے جب راستہ نہیں ہوگا

    فرار کے لیے جب راستہ نہیں ہوگا تو باب خواب بھی کیا کوئی وا نہیں ہوگا اک ایسے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھا جائے جہاں کسی کو کوئی جانتا نہیں ہوگا وہ بات تھی تو کئی دوسرے سبب بھی تھے یہ بات ہے تو سبب دوسرا نہیں ہوگا یوں اس نگاہ کو اپنی کشادہ رکھتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی دیکھنا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ میں سر سے پیر تلک نوک سنگ تھا

    گرچہ میں سر سے پیر تلک نوک سنگ تھا پھر بھی وہ مجھ سے بر‌ سر پیکار و جنگ تھا لب سل گئے تھے اپنے انا کے سوال پر گو دل ہی دل میں مجھ سے وہ میں اس سے تنگ تھا میں آ گیا الانگ کے ہر دشت ہر پہاڑ تیری صدا پہ مجھ پہ ٹھہر جانا ننگ تھا دنیا تمام آتشیں دھاروں کی زد میں تھی لیکن میں بے خطر تھا ...

    مزید پڑھیے

    کاکروچوں مکڑیوں کی فصل آ کر تو بھی دیکھ

    کاکروچوں مکڑیوں کی فصل آ کر تو بھی دیکھ عمر بھر دیکھا جو میں نے وہ گھڑی بھر تو بھی دیکھ اک مسلسل بے وقوفی کا عمل ہے زندگی میرے حصے میں جو آیا وہ مقدر تو بھی دیکھ دوسرے کے تجربے پر ٹیڑھی بنیادیں نہ رکھ بلب کو اپنی ہتھیلی سے پچک کر تو بھی دیکھ خواہشیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے ...

    مزید پڑھیے

    کون گزرا تھا محراب جاں سے ابھی خامشی شور بھرتا ہوا

    کون گزرا تھا محراب جاں سے ابھی خامشی شور بھرتا ہوا دھند میں کوئی شے جوں دمکتی ہوئی اک بدن سا بدن سے ابھرتا ہوا صرف کرتی ہوئی جیسے ساعت کوئی لمحہ کوئی فراموش کرتا ہوا پھر نہ جانے کہاں ٹوٹ کر جا گرا ایک سایہ سروں سے گزرتا ہوا ایک عمر گریزاں کی مہلت بہت پھیلتا ہی گیا میں افق تا ...

    مزید پڑھیے

    اس دشت نوردی میں جینا بہت آساں تھا

    اس دشت نوردی میں جینا بہت آساں تھا ہم چاک گریباں تھے سر پر کوئی داماں تھا ہم سے بھی بہت پہلے آیا تھا یہاں کوئی جب ہم نے قدم رکھا یہ خاک داں ویراں تھا اڑتے ہوئے پھرتے تھے آوارہ غباروں سے وہ وقت تھا جب اس کے لوٹ آنے کا امکاں تھا یہ راہ طلب یارو گمراہ بھی کرتی ہے سامان اسی کا تھا جو ...

    مزید پڑھیے

    ایک سوکھی ہڈیوں کا اس طرف انبار تھا

    ایک سوکھی ہڈیوں کا اس طرف انبار تھا اور ادھر اس کا لچیلا گوشت اک دیوار تھا ریل کی پٹری نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے آپ اپنی ذات سے اس کو بہت انکار تھا لوگ ننگا کرنے کے درپئے تھے مجھ کو اور میں بے سر و سامانیوں کے نشے میں سرشار تھا مجھ میں خود میری عدم موجودگی شامل رہی ورنہ اس ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے

    خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے آئندہ لمحہ اب کے بھی یوں ہی گزر نہ جائے رسی لٹک رہی ہے گلے کو نہ بھینچ لے خنجر چمک رہا ہے بدن میں اتر نہ جائے منہ پھاڑتی ہیں گھر کی دراڑیں ادھر ادھر اک قہقہہ کہ جیسے فضا میں بکھر نہ جائے کیوں اس کے ساتھ ہی نہ رہا جائے چند روز جو آدمی کہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4