Ata Abidi

عطا عابدی

عطا عابدی کی غزل

    نشاط کار سے محروم ہی سہی ہم بھی

    نشاط کار سے محروم ہی سہی ہم بھی ہوس سے زیست کی پھر بھی نہیں تہی ہم بھی ہمیں بھی زعم ہے دانشورانہ منصب کا ہیں مبتلائے فریب خود آگہی ہم بھی ہیں مٹھیوں میں سبھی رہنما خطوط اگر اٹھائے پھرتے ہیں کیوں بار گمرہی ہم بھی ہے زیست نام تغیر کا یہ سنا تو ہے وہی ہو تم بھی وہی غم بھی اور وہی ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں کے تعاقب میں حیران ملی دنیا

    سانسوں کے تعاقب میں حیران ملی دنیا تصویر بنے جب ہم آئینہ ہوئی دنیا ہم خون پسینہ جب اک کر کے ہوئے روشن کیوں آگ بنی دنیا اور خوب جلی دنیا اپنا نظریہ کیا محروم نظر ہیں جب اس سمت چلے ہم بھی جس سمت چلی دنیا سیلاب بلا سے یہ کیوں خوف دلاتی ہے کیا ہم کو بچائے گی شعلوں میں گھری ...

    مزید پڑھیے

    تیرگی شمع بنی راہ گزر میں آئی

    تیرگی شمع بنی راہ گزر میں آئی ساعت اک ایسی بھی کل اپنے سفر میں آئی جس جگہ چہرہ ہی معیار وفا ٹھہرا ہے خاک ہی خاک وہاں دست ہنر میں آئی تیری نظروں میں تھی دنیا تو یہی کیا کم تھا حشر یہ ہے کہ تو دنیا کی نظر میں آئی بارہا یاروں نے ساحل سے کہا تھا ہم ہیں بارہا ناؤ مگر اپنی بھنور میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے

    کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے کہ دنیا جلد لوٹے گی سفر سے میں صحرا میں سفینہ دیکھتا ہوں سمندر کوئی گزرا ہے ادھر سے سنبھالو اپنا حرف داد و تحسیں میں کب ہوں مطمئن عرض ہنر سے خطا ہے یہ جواز اپنی خطا کا خطائیں ہوتی رہتی ہیں بشر سے سبھوں میں خامیاں ہی دیکھتا ہے وہ ہے محروم کیا حسن ...

    مزید پڑھیے

    سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا

    سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا پہلے بھی تنہا تھا لیکن اس قدر تنہا نہ تھا وہ تو یہ کہیے غم دوراں نے رکھ لی آبرو ورنہ دل کی بات تھی کچھ کھیل بچوں کا نہ تھا بچ کے طوفاں سے نکل آیا تو حیرانی ہے کیوں گو سفینہ ڈوبتا تھا حوصلہ ٹوٹا نہ تھا آپ آئے تو یقیں کرنا پڑا ورنہ یہاں رات ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی

    تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی تشنگی اپنی چھپا لوں پانی خاک اڑتی ہے ہر اک چہرے پر کس کی آنکھوں سے نکالوں پانی دھوپ دریا پہ نظر رکھتی ہے تجھ کو کوزے میں چھپا لوں پانی اڑتے پھرتے ہیں سروں پر بادل خواب آنکھوں میں بسا لوں پانی روز بچوں کو سلا دوں یونہی روز پتھر کو ابالوں پانی آگ سے ...

    مزید پڑھیے

    یوں تماشے رت جگے کے کو بہ کو ہوتے رہے

    یوں تماشے رت جگے کے کو بہ کو ہوتے رہے سر پہ سورج آن پہنچا اور ہم سوتے رہے شاعری پیغمبری کا ایک حصہ تھی مگر لوگ اس کو صرف شہرت کے لئے ڈھوتے رہے موت سے آنکھیں ملانے کی سزا مل کر رہی زندگی بھر زندگی کے واسطے روتے رہے روشنی کی کاشت تھی مطلوب ہم سے اور ہم تیرگی کے شہر میں دانشوری ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی مہربانی ہو گئی ہے

    کسی کی مہربانی ہو گئی ہے عیاں دل کی کہانی ہو گئی ہے ہرے موسم کی پہلی خواہشیں اف خوشی غم کی دوانی ہو گئی ہے سبھی افراد گھر کے سو گئے ہیں بہت لمبی کہانی ہو گئی ہے روایت کا ہے اب بھی سحر قائم ہر اک جدت پرانی ہو گئی ہے پس چہرہ ملا اک اور چہرہ عقیدت پانی پانی ہو گئی ہے

    مزید پڑھیے

    تماشا زندگی کا روز و شب ہے

    تماشا زندگی کا روز و شب ہے ہماری آنکھوں کو آرام کب ہے چمکتی ہے تمنا جگنوؤں سی اندھیری رات میں رونق عجب ہے ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے کہیں دنیا کہاں اس کے تقاضے وہ تیرا مے کدہ یہ میرا لب ہے زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکن عطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے

    مزید پڑھیے

    جاگتے ہی نظر اخبار میں کھو جاتی ہے

    جاگتے ہی نظر اخبار میں کھو جاتی ہے زندگی درد کے انبار میں کھو جاتی ہے نا خدا عقل کے پتوار اٹھاتا ہے کہ جب کشتئ دل مری منجدھار میں کھو جاتی ہے بے سبب سوچنے والے کبھی سوچا تو نے آگہی کثرت افکار میں کھو جاتی ہے اڑتے رہتے ہیں خیالات کے جگنو پھر بھی بات کیوں پردۂ اظہار میں کھو جاتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2