Asrarul Haq Asrar

اسرارالحق اسرار

اسرارالحق اسرار کی غزل

    جانتے تھے غم ترا دریا بھی تھا گہرا بھی تھا

    جانتے تھے غم ترا دریا بھی تھا گہرا بھی تھا ڈوبنے سے پیشتر سوچا بھی تھا سمجھا بھی تھا آئنہ اے کاش تو اپنا بنا لیتا مجھے فائدہ اس میں بہت تیرا بھی تھا میرا بھی تھا اک عذاب جان تھی اس کی تنک خوئی مگر ذائقہ اس درد کا میٹھا بھی تھا تیکھا بھی تھا کیسے پڑھ لیتا میں اس چہرہ سے اپنا حال ...

    مزید پڑھیے

    سنتا رہا ہے اور سنے گا جہاں مجھے

    سنتا رہا ہے اور سنے گا جہاں مجھے یوں رکھ گیا ہے کوئی سر داستاں مجھے سقراط کیا مسیح کیا ذکر حسین کیا ماضی سنا رہا ہے مری داستاں مجھے بے نور میرے بعد ہوئی بزم کائنات تم تو بتا رہے تھے بہت رائیگاں مجھے موجوں سے ایک عمر رہا معرکہ مگر غرقاب کر گئیں مری گہرائیاں مجھے کس کو گماں تھا ...

    مزید پڑھیے

    سینۂ سنگ میں ڈھونڈھتا ہے گداز

    سینۂ سنگ میں ڈھونڈھتا ہے گداز دے خدا دل کو اک اور عمر دراز ہم دکھانا بھی چاہیں اگر کچھ کو کچھ آئنوں سے کریں کس طرح ساز باز اک طرف خواب ہے اک طرف زندگی دیکھیے کون ہوتا ہے اب سرفراز تیرے غم سے ملی دل کو وہ زندگی تجھ سے بھی کر دیا ہے ہمیں بے نیاز اس طرح میری آنکھوں سے آنسو بہے بے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں ہر سانس دشواری لگے ہے

    ہمیں ہر سانس دشواری لگے ہے مگر یہ زندگی پیاری لگے ہے تمہیں دھوکا سحر کا ہے تو ہوگا ہمیں تو رات اندھیاری لگے ہے مرے ملبوس پر چھینٹے لہو کے ترے دامن کی گلکاری لگے ہے زباں شاید یہی شرفا کی ٹھہرے تمہیں جو آج بازاری لگے ہے وفا کیا ہے یہ تم اس دل سے پوچھو کہ جس دل کو یہ بیماری لگے ...

    مزید پڑھیے

    خزانہ لطف کا جیسے نفس نفس میں تھا

    خزانہ لطف کا جیسے نفس نفس میں تھا عجب سرور کا عالم میری ہوس میں تھا وہاں بھی لوگ اجالوں پہ ناز کرتے تھے ہر آفتاب جہاں تیرگی کے بس میں تھا پھرے بھی دن تو اسے پتھروں کے پاؤں ملے وہ ایک پھول جو مدت سے خار و خس میں تھا تھکن نہیں تھی یہ تھا بے حسی کا سناٹا عجیب کرب سا اک نالۂ جرس میں ...

    مزید پڑھیے

    دور تا حد نظر آب شجر کچھ بھی نہیں

    دور تا حد نظر آب شجر کچھ بھی نہیں جانے کیا کیا تھا نگاہوں میں مگر کچھ بھی نہیں جس کی تکمیل میں اک عمر ہوئی اپنی تمام وقت آیا تو وہ سامان سفر کچھ بھی نہیں دور تک پھیل گئی زخم چٹکنے کی صدا وہ بہت پاس تھا اور اس کو خبر کچھ بھی نہیں ہر نفس کرب کے جنگل میں بھٹکنے کے سوا آگہی کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرے تو کہاں ٹھہرے آخر مری بینائی

    ٹھہرے تو کہاں ٹھہرے آخر مری بینائی ہر شخص تماشا ہے ہر شخص تماشائی یہ حسن کا دھوکا بھی دل کے لئے کافی تھا چھونے کے لئے کب تھی مہتاب کی اونچائی آئینے کی حاجت سے انکار نہیں لیکن اس درجہ نہ تھا پہلے دستور خود آرائی سرمایۂ دل آخر اور اس کے سوا کیا ہے ہر درد سے رشتہ ہے ہر غم سے ...

    مزید پڑھیے

    کیسے رفو ہوں چاک گریباں میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

    کیسے رفو ہوں چاک گریباں میں بھی سوچوں تو بھی سوچ اپنے اپنے درد کا درماں میں بھی سوچوں تو بھی سوچ جس کے لئے اک عمر سے لمبی کاٹی ہم نے کالی رات صبح وہ کیوں ہے شام بداماں میں بھی سوچوں تو بھی سوچ میرے لہو سے نقش ہوئی ہے میری ہی تصویر مگر کس کا ہے یہ شوق نگاراں میں بھی سوچوں تو بھی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو مایوس دل تیرے بس میں بھی ہے

    کچھ تو مایوس دل تیرے بس میں بھی ہے زندگی کا ہنر خار و خس میں بھی ہے آپ کا جو ارادہ ہو کہہ دیجئے دل ابھی کچھ میری دسترس میں بھی ہے تیری مرضی سے میں مانگتا ہوں تجھے میرا کردار میری ہوس میں بھی ہے آ کہ ٹوٹے تعلق کو پھر جوڑ لیں تیرے بس میں بھی ہے میرے بس میں بھی ہے شہر گل میں بھی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کون ہے کس کا خریدار چلو چھوڑو بھی

    کون ہے کس کا خریدار چلو چھوڑو بھی ہیں سبھی رونق بازار چلو چھوڑو بھی کوئی زاہد ہے نہ مے خوار چلو چھوڑو بھی ہیں سبھی صاحب کردار چلو چھوڑو بھی فرق کیا ملزم و منصف میں بتایا جائے ہے یہ بیکار کی تکرار چلو چھوڑو بھی کچھ رسومات کہن ہیں کہ نباہیں کب تک انسیت مخلصی کردار چلو چھوڑو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2