خزانہ لطف کا جیسے نفس نفس میں تھا
خزانہ لطف کا جیسے نفس نفس میں تھا
عجب سرور کا عالم میری ہوس میں تھا
وہاں بھی لوگ اجالوں پہ ناز کرتے تھے
ہر آفتاب جہاں تیرگی کے بس میں تھا
پھرے بھی دن تو اسے پتھروں کے پاؤں ملے
وہ ایک پھول جو مدت سے خار و خس میں تھا
تھکن نہیں تھی یہ تھا بے حسی کا سناٹا
عجیب کرب سا اک نالۂ جرس میں تھا
سکوت قلب کا آخر شکار ہو ہی گیا
وہ ایک شخص جو تا عمر پیش و پس میں تھا
سبھی کو تیلیاں اپنی عزیز تھیں اسرارؔ
کہ جو پرند تھا خود ساختہ قفس میں تھا