ہمیں ہر سانس دشواری لگے ہے

ہمیں ہر سانس دشواری لگے ہے
مگر یہ زندگی پیاری لگے ہے


تمہیں دھوکا سحر کا ہے تو ہوگا
ہمیں تو رات اندھیاری لگے ہے


مرے ملبوس پر چھینٹے لہو کے
ترے دامن کی گلکاری لگے ہے


زباں شاید یہی شرفا کی ٹھہرے
تمہیں جو آج بازاری لگے ہے


وفا کیا ہے یہ تم اس دل سے پوچھو
کہ جس دل کو یہ بیماری لگے ہے


مرے قاتل کو یا رب حوصلہ دے
مجھے کاندھوں پہ سر بھاری لگے ہے


غزل اسرارؔ ہوتی ہے مکمل
کہ دل پر چوٹ جب کاری لگے ہے