Aslam Kolsarii

اسلم کولسری

اسلم کولسری کی غزل

    نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے

    نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے اسے بھی دل سے رخصت کر دیا ہے برائے نام تھا آرام جس کو غزل کہہ کر مصیبت کر دیا ہے سمجھتے ہیں کہاں پتھر کسی کی مگر اتمام حجت کر دیا ہے گلی کوچوں میں جلتی روشنی نے حسیں شاموں کو شامت کر دیا ہے بصیرت ایک دولت ہی تھی آخر سو دولت کو بصیرت کر دیا ہے کئی ہمدم ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی

    ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی دیوان میرؔ کا ہے کورے گھڑے کا پانی اپلوں کی آگ اب تک ہاتھوں سے جھانکتی ہے آنکھوں میں جاگتا ہے کورے گھڑے کا پانی جب مانگتے ہیں سارے انگور کے شرارے اپنی یہی صدا ہے کورے گھڑے کا پانی کاغذ پہ کیسے ٹھہریں مصرعے مری غزل کے لفظوں میں بہہ رہا ہے کورے ...

    مزید پڑھیے

    بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی

    بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی من گھائل کرتی ہیں آنکھیں روئی روئی ملبے کے نیچے سے نکلا ماں کا لاشہ اور ماں کی گودی میں بچی سوئی سوئی ایک لرزتے پل میں بنجر ہو جاتی ہیں آنکھوں میں خوابوں کی فصلیں بوئی بوئی سرد ہوائیں شہروں شہروں چیخیں لائیں مرہم مرہم خیمہ خیمہ لوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہی خوابیدہ خاموشی وہی تاریک تنہائی

    وہی خوابیدہ خاموشی وہی تاریک تنہائی تمہیں پا کر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اگر جاں سے گزر جاؤں تو میں اوپر ابھر آؤں کہ لاشوں کو اگل دیتی ہے دریاؤں کی گہرائی کھڑا ہے دشت ہستی میں اگرچہ نخل جاں لیکن گل گویائی باقی ہے نہ کوئی برگ بینائی محبت میں بھی دل والے سیاست کر گئے ...

    مزید پڑھیے

    ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں

    ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں وہ کوئلے سے مرا نام لکھ چکا تو اسے سنا ہے دیکھنے والوں نے پھول مارے ہیں یہ کس بلا کی زباں آسماں کو چاٹ گئی کہ چاند ہے نہ کہیں کہکشاں نہ تارے ...

    مزید پڑھیے

    دیار ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں

    دیار ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں تجھے بھی میں تری یادوں میں کھو کر بھول جاتا ہوں عجب دن تھے کہ برسوں ضرب خوشبو یاد رہتی تھی عجب دن ہیں کہ فوراً زخم خنجر بھول جاتا ہوں گزر جاتا ہوں گھر کے سامنے سے بے خیالی میں کبھی دفتر کے دروازے پہ دفتر بھول جاتا ہوں اسی باعث بڑی چاہت ...

    مزید پڑھیے

    زلزلے کا خوف طاری ہے در و دیوار پر

    زلزلے کا خوف طاری ہے در و دیوار پر جبکہ میں بیٹھا ہوا ہوں کانپتے مینار پر ہاں اسی رستے میں ہے شہر نگار آرزو آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر پھر اڑا لائی ہوا مجھ کو جلانے کے لیے زرد پتے چند سوکھی ٹہنیاں دو چار پر طائر تخئیل کا سارا بدن آزاد ہے صرف اک پتھر پڑا ہے شیشۂ منقار ...

    مزید پڑھیے

    بھیگے شعر اگلتے جیون بیت گیا

    بھیگے شعر اگلتے جیون بیت گیا ٹھنڈی آگ میں جلتے جیون بیت گیا یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا ایک انوکھا سپنا دیکھا نیند اڑی آنکھیں ملتے ملتے جیون بیت گیا آخر کس بہروپ کو اپنا روپ ...

    مزید پڑھیے

    جب دل ہی نہیں باقی وہ آتش پارا سا

    جب دل ہی نہیں باقی وہ آتش پارا سا کیوں رقص میں رہتا ہے پلکوں پہ شرارا سا وہ موج ہمیں لے کر گرداب میں جا نکلی جس موج میں روشن تھا سرسبز کنارا سا تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارا سا تنکوں کی طرح ہر شب تن من کو بہا لے جائے اک برسوں سے بچھڑی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا

    جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا بے لوث دوستی کا بڑا ہی مزا لیا اک لمحۂ سکوں تو ملا تھا نصیب سے لیکن کسی شریر صدی نے چرا لیا کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا اسلمؔ بڑے وقار سے ڈگری وصول کی اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2