وہی خوابیدہ خاموشی وہی تاریک تنہائی

وہی خوابیدہ خاموشی وہی تاریک تنہائی
تمہیں پا کر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی


اگر جاں سے گزر جاؤں تو میں اوپر ابھر آؤں
کہ لاشوں کو اگل دیتی ہے دریاؤں کی گہرائی


کھڑا ہے دشت ہستی میں اگرچہ نخل جاں لیکن
گل گویائی باقی ہے نہ کوئی برگ بینائی


محبت میں بھی دل والے سیاست کر گئے اسلمؔ
گلے میں ہار ڈالے پاؤں میں زنجیر پہنائی