Arshad Mahmood Arshad

ارشد محمود ارشد

ارشد محمود ارشد کی غزل

    میں نے اسی سے ہاتھ ملایا تھا اور بس

    میں نے اسی سے ہاتھ ملایا تھا اور بس وہ شخص جو ازل سے پرایا تھا اور بس لمبا سفر تھا آبلہ پائی تھی دھوپ تھی میں تھا تمہاری یاد کا سایہ تھا اور بس حد نگاہ چار سو کرنوں کا رقص تھا پہلو میں چاند جھیل کے آیا تھا اور بس اک بھیڑیا تھا دوستی کی کھال میں چھپا اس نے مرے وجود کو کھایا تھا ...

    مزید پڑھیے

    خودی کے زعم میں ایسا وہ مبتلا ہوا ہے

    خودی کے زعم میں ایسا وہ مبتلا ہوا ہے جو آدمی بھی نہیں تھا وہ اب خدا ہوا ہے وہ کہہ رہا تھا بجھائے گا پیاس صحرا کی مرا اک ابر کے ٹکڑے سے رابطہ ہوا ہے تمہارا طرز بیاں خوب ہے مگر صاحب یہ قصہ میں نے ذرا مختلف سنا ہوا ہے یہ مٹی پاؤں مرے چھوڑتی نہیں ورنہ فلک کا راستہ بھی سامنے پڑا ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2