میں نے اسی سے ہاتھ ملایا تھا اور بس
میں نے اسی سے ہاتھ ملایا تھا اور بس وہ شخص جو ازل سے پرایا تھا اور بس لمبا سفر تھا آبلہ پائی تھی دھوپ تھی میں تھا تمہاری یاد کا سایہ تھا اور بس حد نگاہ چار سو کرنوں کا رقص تھا پہلو میں چاند جھیل کے آیا تھا اور بس اک بھیڑیا تھا دوستی کی کھال میں چھپا اس نے مرے وجود کو کھایا تھا ...