Arshad Lateef

ارشد لطیف

  • 1961

ارشد لطیف کی غزل

    ایک صورت تری بنانے میں

    ایک صورت تری بنانے میں رنگ مصروف ہیں زمانے میں پھیلتی جا رہی ہے یہ دنیا جشن آوارگی منانے میں قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے دل قصۂ عاشقی سنانے میں کیسے کیسے وجود روشن ہیں وقت کے نیلے شامیانے میں میرا پیکر مجھے عطا کر دے کیا کمی ہے ترے خزانے میں

    مزید پڑھیے

    سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے

    سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے تری غرض نے محبت سے باندھ رکھا ہے عجب کشش ہے ترے ہونے یا نہ ہونے میں گماں نے مجھ کو حقیقت سے باندھ رکھا ہے کبھی کبھی تو مجھے ٹوٹتا دکھائی دے جو ایک عہد قیامت سے باندھ رکھا ہے شہ جمال ترے شہر کے فقیروں کو کمال ہجر نے وحشت سے باندھ رکھا ہے بھٹک ...

    مزید پڑھیے

    کسی صورت اگر اظہار کی صورت نکل آئے

    کسی صورت اگر اظہار کی صورت نکل آئے تو ممکن ہے کسی سے پیار کی صورت نکل آئے مسیحائی پہ وہ کافر اگر ایمان لے آئے شفا کی شکل میں بیمار کی صورت نکل آئے اگر وہ بے وفا ضد چھوڑ دے اور ٹھیک ہو جائے تو شاید پھر مرے گھر بار کی صورت نکل آئے کوئی تو معجزہ ایسا بھی ہو اپنی محبت میں ترے انکار ...

    مزید پڑھیے

    محبت صرف اک جذبہ نہیں ہے

    محبت صرف اک جذبہ نہیں ہے نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہے سبھی تعبیر اس کی لکھ رہے ہیں کسی نے بھی اسے دیکھا نہیں ہے کسی کھائی میں وہ بھی جا گرا ہے جو تیری راہ سے گزرا نہیں ہے نہ کر سینے کے آتش دان ٹھنڈے بجھا دل پھر کبھی جلتا نہیں ہے چلو باہر سے ہو کر لوٹ آئیں کئی دن سے کوئی آیا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جب میں اس آدمی سے دور ہوا

    جب میں اس آدمی سے دور ہوا غم مری زندگی سے دور ہوا میں بھی اس کے مکان سے نکلا وہ بھی میری گلی سے دور ہوا دل سے کانٹا نکالنے کے بعد درد اپنی کمی سے دور ہوا وہ سمجھتا رہا کہ روئے گا میں بڑی خامشی سے دور ہوا راستے میں جو اک سمندر تھا میری تشنہ لبی سے دور ہوا وہ جسے مجھ سے دور ہونا ...

    مزید پڑھیے

    ہم وہ پنچھی جن کے گھر سے دور بسیرے ہوتے ہیں

    ہم وہ پنچھی جن کے گھر سے دور بسیرے ہوتے ہیں رات کو خواب خیال کے لشکر دل کو گھیرے ہوتے ہیں سوچ سوچ کر مر جاتی ہیں خوابوں کی تعبیریں بھی خواب جو تیرے ہوتے ہیں اور خواب جو میرے ہوتے ہیں عشق کا حاصل کچھ بھی ہو اک نسبت بھی کیا کم شے ہے کچھ ناں کچھ تو ہوتے ہیں جو بال بکھیرے ہوتے ہیں دل ...

    مزید پڑھیے

    ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے

    ترے خیال سے پھر آنکھ میری پر نم ہے کہ غم زیادہ ہے اور حوصلہ مرا کم ہے بقا کے واسطے صدیوں سے جنگ جاری ہے فنا کے شور شرابے سے ناک میں دم ہے نہیں تو کب کا مکمل میں ہو چکا ہوتا جسے میں اپنا سمجھتا ہوں اس میں کچھ کم ہے عجیب دور ہے یہ دور میری مشکل کا سوال میں ہے نہ کوئی جواب میں دم ...

    مزید پڑھیے

    کوئی نہیں ہے انتظار صبح وصال کے سوا

    کوئی نہیں ہے انتظار صبح وصال کے سوا کوئی طلب نہیں مجھے تیرے جمال کے سوا کس کے سوال پر یہ دل روتا ہے ساری ساری رات کون حبیب ہے مرا تیرے خیال کے سوا کوئی نہیں جو روح پر ایسا بھلا اثر کرے نشے تمام ہیں وجود تیری مثال کے سوا چشمۂ خواب سے مجھے دونوں جہاں عطا ہوئے کچھ بھی نہیں ہے میرے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک فسانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے

    ہر اک فسانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے غم زمانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے کسی کو علم نہیں کون کتنا پاگل ہے جنوں دوانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے ذرا سی بات پہ وہ ہم سے روٹھ جاتا ہے اسے منانا ضرورت سے کچھ زیادہ ہے جو ہم نے سیکھا جو مانا وہ کتنا کم نکلا جو ہم نے جانا ضرورت سے کچھ زیادہ ہے ہم ...

    مزید پڑھیے