ہر اک فسانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے

ہر اک فسانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے
غم زمانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے


کسی کو علم نہیں کون کتنا پاگل ہے
جنوں دوانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے


ذرا سی بات پہ وہ ہم سے روٹھ جاتا ہے
اسے منانا ضرورت سے کچھ زیادہ ہے


جو ہم نے سیکھا جو مانا وہ کتنا کم نکلا
جو ہم نے جانا ضرورت سے کچھ زیادہ ہے


ہم ایسے شہر میں ہیں جس میں ملک بستے ہیں
یہاں خزانہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہے