ہم وہ پنچھی جن کے گھر سے دور بسیرے ہوتے ہیں

ہم وہ پنچھی جن کے گھر سے دور بسیرے ہوتے ہیں
رات کو خواب خیال کے لشکر دل کو گھیرے ہوتے ہیں


سوچ سوچ کر مر جاتی ہیں خوابوں کی تعبیریں بھی
خواب جو تیرے ہوتے ہیں اور خواب جو میرے ہوتے ہیں


عشق کا حاصل کچھ بھی ہو اک نسبت بھی کیا کم شے ہے
کچھ ناں کچھ تو ہوتے ہیں جو بال بکھیرے ہوتے ہیں


دل کی شمعیں جلنے دو ان آنکھوں کو روشن کر لو
کہتے ہیں دل جلتے ہیں تو دور اندھیرے ہوتے ہیں


قسمت لکھتی جاتی ہے ہم اس کو پڑھتے جاتے ہیں
ارشدؔ اب تو یادوں ہی میں گھر کے پھیرے ہوتے ہیں