Arshad Kamal

ارشد کمال

ارشد کمال کی غزل

    کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے

    کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے مرا دل میرے پہلو میں پرایا ہو گیا ہے وہ آئے تو لگا غم کا مداوا ہو گیا ہے مگر یہ کیا کہ غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہے سواد شب ترے صدقے کچھ ایسا ہو گیا ہے بھنور بھی دیکھنے میں اب کنارا ہو گیا ہے میں ان کی گفتگو سے عالم سکتہ میں گم تھا وہ سمجھے ان ...

    مزید پڑھیے

    کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے

    کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے مرے اندر پرانا اک شناور جاگ اٹھتا ہے نشیمن گیر ہیں طائر بھلا سمجھیں تو کیا سمجھیں وہ کیفیت کہ جب شاہیں کا شہپر جاگ اٹھتا ہے میں جب بھی کھینچتا ہوں ایک نقشہ روز روشن کا نہ جانے کیسے اس میں شب کا منظر جاگ اٹھتا ہے زمانہ گامزن ہے پھر انہی ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح

    ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح کسی کا دھیان ہے ایسے میں بادباں کی طرح نسیم صبح یہ کہتی ہے کتنی حسرت سے کوئی تو باغ میں مل جائے باغباں کی طرح ہے وہ تپش ترے پلکوں کے شامیانے میں کہ اب تو دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح ہر ایک موڑ پہ ملتے ہیں ہم خیال مگر کہیں تو کوئی ملے مجھ کو ہم ...

    مزید پڑھیے

    ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

    ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے ساحل سے سمندر کا نظارہ نہیں کرتے ہر شعبۂ ہستی ہے طلب گار توازن ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے دستک سے علاقہ رہا کب شیش محل کو خوابیدہ سماعت کو پکارا نہیں کرتے ہم فرط ...

    مزید پڑھیے

    فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے

    فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے ایک بجھتی سی انگیٹھی کو ہوا دی جائے کسی جنگل میں اگر ہو تو بجھا دی جائے کیسے تن من میں لگی آگ دبا دی جائے تلخی زیست کی شدت کا تقاضہ ہے یہی ذہن و دل میں جو مسافت ہے گھٹا دی جائے تیرگی شب کی بسی جائے ہے ہستی میں مری صبح کو جا کے یہ روداد سنا دی ...

    مزید پڑھیے

    سچ کی خاطر سب کچھ کھویا کون لکھے گا

    سچ کی خاطر سب کچھ کھویا کون لکھے گا میرا یہ بے کیف سا قصہ کون لکھے گا یوں تو ہر کاندھے پر اک چہرہ ہے لیکن کس کے پاس ہے اپنا چہرہ کون لکھے گا برف پگھل کر دریا تو طغیانی لائے کیوں چڑھتا ہے وقت کا دریا کون لکھے گا دشت نوردی کا قصہ تو سب لکھتے ہیں کس گھر میں ہے کتنا صحرا کون لکھے ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ ظاہر میں ہیں احوال منور سارے

    گرچہ ظاہر میں ہیں احوال منور سارے رقص کرتے ہیں اندھیرے مرے اندر سارے موجۂ درد بنا دے گا انہیں مثل صبا وہ جو پھرتے ہیں یہاں صورت صرصر سارے داغ دل میرے فروزاں ہیں زمیں پر ایسے چھپتے پھرتے ہیں فلک پر مہ و اختر سارے مرے دریائے سخن سے ہے علاقہ کیسا وہ تو پایاب ندی کے ہیں شناور ...

    مزید پڑھیے

    تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے

    تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے کہ بہر مصلحت اب مستقر ہے در صیاد پر برپا ہے ماتم قفس میں جب سے ذکر بال و پر ہے تکلم کا کرشمہ اب دکھا دو تمہاری خامشی میں شور و شر ہے کروں کیا آرزوئے سرفرازی کہ جب نیزے پہ ہر پل میرا سر ہے ملی مہلت تو دل میں جھانک لوں گا ابھی تو ذہن پر میری نظر ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا

    کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا آنکھ سے ٹپکے وہی گریۂ ماتم کے سوا گلشن زیست میں موسم کا بدلنا کیا ہے کاش رک جائے کوئی درد کے موسم کے سوا صبح کا وقت ہے کرنوں کو بتا دے کوئی خوش ہیں گلشن میں سبھی قطرۂ شبنم کے سوا وہ زمانے کا تغیر ہو کہ موسم کا مزاج بے ضرر دونوں ہیں نیرنگی آدم ...

    مزید پڑھیے

    درد کی ساکت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے

    درد کی ساکت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے موج حیرت کا تماشا اب کہاں ہونے کو ہے جو گراں بار سماعت تھا کبھی سب کے لیے اب وہی کلمہ یہاں حسن بیاں ہونے کو ہے کیوں کریں وہ اپنی قسمت کے ستارے کی تلاش دسترس میں جن کے سارا آسماں ہونے کو ہے مجھ کو اس منزل سے گزرے کتنی مدت ہو گئی وقت میری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2