گرچہ ظاہر میں ہیں احوال منور سارے

گرچہ ظاہر میں ہیں احوال منور سارے
رقص کرتے ہیں اندھیرے مرے اندر سارے


موجۂ درد بنا دے گا انہیں مثل صبا
وہ جو پھرتے ہیں یہاں صورت صرصر سارے


داغ دل میرے فروزاں ہیں زمیں پر ایسے
چھپتے پھرتے ہیں فلک پر مہ و اختر سارے


مرے دریائے سخن سے ہے علاقہ کیسا
وہ تو پایاب ندی کے ہیں شناور سارے


تشنگی زاغ نے اپنی تو بجھا لی پل میں
حیف گاگر میں پڑے رہ گئے کنکر سارے


کون بنتا ہے سفینہ یہاں کس کی خاطر
یوں تو موجود ہیں دریا میں شناور سارے


راہ رو اور بھی دنیا میں ہیں ارشدؔ لیکن
میری ہی راہ میں پڑتے ہیں سمندر سارے