ہر چند مرا غم غم نادیدہ رہا ہے
ہر چند مرا غم غم نادیدہ رہا ہے سایہ سا مگر روح پہ لرزیدہ رہا ہے چبھتے ہی رہے خار الم دست طلب میں راحت وہ گل جاں ہے کہ ناچیدہ رہا ہے ڈوبے ہیں یہاں کتنی امنگوں کے سفینے طوفان کا مسکن دل شوریدہ رہا ہے بازیچۂ فردوس سے کیا بہلے گا وہ دل معراج طرب پر بھی جو رنجیدہ رہا ہے اے منزل ...