Arif Abdul Mateen

عارف عبدالمتین

اردو اور پنجابی کے شاعر و مصنف، مشہور ادبی جریدے ’ادب لطیف‘ اور ’اوراق‘ کے شعبۂ ادارت سے وابستہ رہے

Prominent Urdu and Punjabi poet and author, remained associated with major Urdu journal Adab-e-Lateef and Auraaq

عارف عبدالمتین کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    روح کے جلتے خرابے کا مداوا بھی نہیں

    روح کے جلتے خرابے کا مداوا بھی نہیں درد وہ بادل ہے جو کھل کر برستا بھی نہیں شہر کے زنداں نے پہنا دیں وہ زنجیریں مجھے میری وحشت کو میسر دل کا صحرا بھی نہیں جس میں بہہ جائے سفینے کی طرح میرا وجود میری آنکھوں سے رواں غم کا وہ دریا بھی نہیں کرب کا سورج سوا نیزے پہ ہے ٹھہرا ہوا دل ...

    مزید پڑھیے

    عارفؔ ازل سے تیرا عمل مومنانہ تھا

    عارفؔ ازل سے تیرا عمل مومنانہ تھا ہاں غم یہ تھا کہ فکر کا ڈھب کافرانہ تھا تو مجھ سے دور رہ کے بھی میرے قریب تھا ہر چند تو خدا کی طرح تھا خدا نہ تھا تنہائی بسیط کا وہ عہد یاد کر جب تیرے پاس کوئی بھی تیرے سوا نہ تھا تھا اعتماد حسن سے تو اس قدر تہی آئینہ دیکھنے کا تجھے حوصلہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    میں ازل کا راہرو مجھ کو ابد کی جستجو

    میں ازل کا راہرو مجھ کو ابد کی جستجو گرد رہ میرے جلو میں ساتھ میرے میں نہ تو زرد تھا چہرہ مگر مسرور تھا پہلو میں دل برگ گل جب لے اڑا چپکے سے میرا رنگ و بو مجھ کو اپنے شہر کا ہر ایک ذرہ ہے عزیز اے ہوا لے جا اڑا کر خاک میری کو بہ کو وقت کا دریا کہ جس میں میں کنول بن کر کھلا سوچئے تو ...

    مزید پڑھیے

    ڈھونڈھتا ہوں سر صحرائے تمنا خود کو

    ڈھونڈھتا ہوں سر صحرائے تمنا خود کو میں کہ سمجھا تھا کبھی روح تماشا خود کو اپنے بچوں کی طرف غور سے جب بھی دیکھا کتنے ہی رنگوں میں بکھرا ہوا پایا خود کو اور کچھ لوگ مرے سائے تلے سستا لیں گرتی دیوار ہوں دیتا ہوں سہارا خود کو نور تو مجھ سے فراواں ہوا محفل محفل غم نہیں شمع صفت میں ...

    مزید پڑھیے

    چاند میرے گھر میں اترا تھا کہیں ڈوبا نہ تھا

    چاند میرے گھر میں اترا تھا کہیں ڈوبا نہ تھا اے مرے سورج ابھی آنا ترا اچھا نہ تھا میں نے سن لی تھی ترے قدموں کی آہٹ دور سے تو نہ آئے گا کبھی دل میں مرے دھڑکا نہ تھا میں نے دیکھا تھا سر آئینہ اک پیکر کا عکس ہو بہ ہو ہم شکل تھا میرا مگر مجھ سا نہ تھا کیوں جھلس ڈالا ہے اس نے میرے خد و ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    گلدان

    سالہا سال بیابان گماں کو سینچا خون ادراک سے آب جاں سے تب کہیں اس میں ہویدا ہوئے افکار کے پھول پھول جن کو مرے بیٹے تری فرحت کے لئے شیشۂ روح کے گل داں میں سجا لایا ہوں اور چپکے سے یہ گل داں میں نے رکھ دیا ہے تری پڑھنے کی نئی میز پہ یوں جیسے اس میز کی تکمیل تھی اس کی محتاج اور سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    ہیولے

    سمندروں کے مہیب طوفاں میرے عزائم کے ساحلوں سے شکست کھا کر پلٹ چکے ہیں میں کوہساروں کی ہستبوں سے بھی آسماں کا وقار بن کر الجھ چکا ہوں میں جنگلوں کی ہواؤں کا زور توڑ دیتا رہا ہوں اپنے نفس کی شوریدہ سطوتوں سے مرے تفکر کی گرم رفتاریوں سے لرزاں رہے ہیں صحراؤں کے بگولے یہ ذکر ہے اس ...

    مزید پڑھیے