Aqeel Shadab

عقیل شاداب

عقیل شاداب کی غزل

    نہ زندگی سے شکایت نہ تم سے شکوہ ہے

    نہ زندگی سے شکایت نہ تم سے شکوہ ہے مرا لباس ہی میرے لہو کا پیاسا ہے بدن کو چھوڑ کے جاؤں تو اب کہاں جاؤں جنم جنم سے مرا اس کے ساتھ رشتہ ہے مرا وجود مری اپنی ہی نگاہوں میں لباس جسم کے ہوتے ہوئے بھی ننگا ہے صلیب لاؤ اسے سرخ رو کیا جائے کوئی کتاب لیے آسماں سے اترا ہے تمہارے جسم میں ...

    مزید پڑھیے

    باعث عرض ہنر کرب نہانی نکلا

    باعث عرض ہنر کرب نہانی نکلا لفظ ہی منبع دریائے معانی نکلا سب کے ہونٹوں کو چھوا ابر رواں نے لیکن میرے حصے کا نہ دریاؤں میں پانی نکلا کون ہوتا ہے شریک سفر تنہائی میرا سایہ ہی مرا دشمن جانی نکلا زندگی جس کے تصور میں بسر کی ہم نے ہائے وہ شخص حقیقت میں کہانی نکلا جس کے سینے میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوس پرستی و غارت گری کی لت نہ گئی

    ہوس پرستی و غارت گری کی لت نہ گئی یزید مر گیا لیکن یزیدیت نہ گئی گھرا رہا میں عجب کشمکش کے عالم میں کہ جب تلک مرے سانسوں کی سوت کت نہ گئی خرد کی آگ میں صدیوں جلے بدن لیکن دل و دماغ سے بوئے منافرت نہ گئی حیات و موت کے ہر انقلاب سے گزرے ہمارے سر سے مگر آسماں کی چھت نہ گئی جتن ہزار ...

    مزید پڑھیے

    میرے ذہن و دل میں فکر و فن میں تھا

    میرے ذہن و دل میں فکر و فن میں تھا نیم کا وہ پیڑ جو آنگن میں تھا جس پہ لکھا تھا مرا نام و نسب قید میں مٹی کے اس برتن میں تھا ایک وہ ہر دشت میں سیراب تھا ایک میں پیاسا ہر اک ساون میں تھا دیکھ کر بھی جو نہ دیکھا جا سکا عکس آرا وہ ہر اک درپن میں تھا کہہ نہ پایا جانے کیوں اک حرف ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2