نہ زندگی سے شکایت نہ تم سے شکوہ ہے

نہ زندگی سے شکایت نہ تم سے شکوہ ہے
مرا لباس ہی میرے لہو کا پیاسا ہے


بدن کو چھوڑ کے جاؤں تو اب کہاں جاؤں
جنم جنم سے مرا اس کے ساتھ رشتہ ہے


مرا وجود مری اپنی ہی نگاہوں میں
لباس جسم کے ہوتے ہوئے بھی ننگا ہے


صلیب لاؤ اسے سرخ رو کیا جائے
کوئی کتاب لیے آسماں سے اترا ہے


تمہارے جسم میں میں ہوں مرے وجود میں تم
ہر ایک آدمی اک دوسرے میں زندہ ہے


تم اپنے آپ سے کیوں اجنبی سے لگتے ہو
تمہارے جسم پہ شادابؔ کس کا پہرہ ہے