Aqeel Shadab

عقیل شاداب

عقیل شاداب کی غزل

    شاید کوئی کمی میرے اندر کہیں پہ ہے

    شاید کوئی کمی میرے اندر کہیں پہ ہے میں آسماں پہ ہوں مرا سایہ زمیں پہ ہے افسانۂ حیات کا ہر ایک سانحہ تحریر حرف حرف ہماری جبیں پہ ہے دریا میں جس طرح سے ہو ماہی اسی طرح میں ہوں جہاں پہ میرا خدا بھی وہیں پہ ہے جنت خدا ہی جانے کہاں ہے کہاں نہیں مجھ کو یقین ہے کہ جہنم یہیں پہ ہے یوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں دیکھنے میں تو اوپر سے سخت ہوں شاید

    یوں دیکھنے میں تو اوپر سے سخت ہوں شاید مگر درون بدن لخت لخت ہوں شاید مرے نصیب میں لکھی ہے شب کی تاریکی میں ڈوبتے ہوئے سورج کا بخت ہوں شاید قریب و دور نہیں ہے کوئی بھی اپنا سا اجاڑ باغ کا تنہا درخت ہوں شاید مجھے کسی نے سنا ہی نہیں توجہ سے میں بد زبان صدائے کرخت ہوں شاید نحیف ...

    مزید پڑھیے

    اثر مری زبان میں نہیں رہا

    اثر مری زبان میں نہیں رہا وہ تیر اب کمان میں نہیں رہا ہے پتھروں کا قرض اس کے دوش پر جو کانچ کے مکان میں نہیں رہا الاؤ سرد ہو گئے حیات کے رچاؤ داستان میں نہیں رہا تھا جس پہ میری زندگی کا انحصار اسی کا نام دھیان میں نہیں رہا گمان ہی اثاثہ تھا یقین کا یقین ہی گمان میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ساتویں نمبر کی صورت وہ بھی پر اسرار تھا

    ساتویں نمبر کی صورت وہ بھی پر اسرار تھا میں صفر کی طرح سب کچھ تھا مگر بیکار تھا ہر نفس اب تک مرے دل کی عجب حالت رہی موت سے ڈرتا بھی تھا جینے سے بھی بیزار تھا اک شناسا نا شناسائی تھی میرے ہر طرف میرا گھر میرے لیے تو گھر نہ تھا بازار تھا میری بربادی کا ضامن دوسرا کوئی نہیں میں کہ ...

    مزید پڑھیے

    متاع و مال نہ دے دولت تباہی دے

    متاع و مال نہ دے دولت تباہی دے مجھے بھی مملکت غم کی بادشاہی دے کھڑا ہوا ہوں میں دست طلب دراز کئے نہ میرے سر کو یوں الزام کج کلاہی دے میں اپنے آپ کو کس طرح سنگسار کروں مرے خلاف مرا دل اگر گواہی دے میں ٹھہرے پانی کی مانند قید ہوں خود میں کوئی نشیب کی جانب مجھے بہا ہی دے مرے دنوں ...

    مزید پڑھیے

    مے کشو جان کے لالے نظر آتے ہیں مجھے

    مے کشو جان کے لالے نظر آتے ہیں مجھے خالی خالی سے پیالے نظر آتے ہیں مجھے ذہن انساں نے تراشے ہیں جو یزداں کے خلاف سارے بے جان حوالے نظر آتے ہیں مجھے وقت رفتار چھلکتے ہوئے یہ روپ کلس چلتے پھرتے سے شوالے نظر آتے ہیں مجھے ہے حواسوں پہ شب ہجر کا اس درجہ اثر صبح کے رنگ بھی کالے نظر آتے ...

    مزید پڑھیے

    لباس گرد کا اور جسم نور کا نکلا

    لباس گرد کا اور جسم نور کا نکلا تمام وہم ہی اپنے شعور کا نکلا جو اپنے آپ سے بڑھ کر ہمارا اپنا تھا اسے قریب سے دیکھا تو دور کا نکلا بدن کے پار اترتے ہی کھل گئیں آنکھیں سراغ تیرے سراپا سے طور کا نکلا سبھی نشانیاں اس شخص پر کھری اتریں جو بھول کر بھی کبھی ذکر حور کا نکلا اٹھے جو ...

    مزید پڑھیے

    برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے

    برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے ہمارے سر پہ بھی ہونے کو آسمان تو ہے تری فراخ دلی کو دعائیں دیتا ہوں مرے لبوں پہ ترے لمس کا نشان تو ہے یہ اور بات کہ وہ اب یہاں نہیں رہتا مگر یہ اس کا بسایا ہوا مکان تو ہے سروں پہ سایہ فگن ابر آرزو نہ سہی ہمارے پاس سرابوں کا سائبان تو ہے علاوہ اس ...

    مزید پڑھیے

    ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا

    ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا وہ خود ہی جمع ہوا اور خود بکھر بھی گیا تھی زندگی مری راہوں کے پیچ و خم کی اسیر مگر میں رات کے ہم راہ اپنے گھر بھی گیا میں دشمنوں میں بھی گھر کر نڈر رہا لیکن خود اپنے جذبۂ حیوانیت سے ڈر بھی گیا مرے لہو کی طلب نے مجھے تباہ کیا ہوس میں سنگ کی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی مجھ کو مری نظروں میں شرمندہ نہ کر

    زندگی مجھ کو مری نظروں میں شرمندہ نہ کر مر چکا ہے جو بہت پہلے اسے زندہ نہ کر حال کا یہ دکھ ترے ماضی کی تجھ کو دین ہے آج تک جو کچھ کیا تو نے وہ آئندہ نہ کر تو بھی اس طوفان میں اک ریت کی دیوار ہے اپنی ہستی بھول کر ہر ایک کی نندہ نہ کر سو گنا ہوتے ہوئے بھی جس نے بازی ہار دی ایسی بزدل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2