Anwar Khan Anwar

انور خاں انور

  • 1946

انور خاں انور کی غزل

    اپنے کردار سے گرتے ہوئے بندے دیکھے

    اپنے کردار سے گرتے ہوئے بندے دیکھے میں نے انسان کی صورت میں درندے دیکھے پہلے مجرم کو ہی ملتی تھی گناہوں کی سزا اب تو معصوم کی گردن میں ہی پھندے دیکھے جن کے دم سے ہے فلک بوس مکانوں کا وجود ان کے ہیں کون سے بازار میں دھندے دیکھے آج اجڑے ہوئے لوگوں کی پنہ گاہوں میں میں نے مردوں کی ...

    مزید پڑھیے

    بھلا ہی دعاؤں سے ہوتا ہے سب کا

    بھلا ہی دعاؤں سے ہوتا ہے سب کا دعا کھٹکھٹاتی ہے دروازہ رب کا بلاؤں سے رہتا ہے محفوظ ہر دم سکوں دے جو ماں باپ کو روز و شب کا مخالف ہوئے لوگ اردو کے پھر بھی جہاں بھر میں رتبہ ہے اردو ادب کا کریں قتل و غارت گری ظلم جو بھی انہیں پاس کب ہے حسب کا نسب کا کرے گا جو مظلوم پر ظلم ...

    مزید پڑھیے

    ہے ذکر یہی ہر سو اب عمر درازوں میں

    ہے ذکر یہی ہر سو اب عمر درازوں میں کھوئی ہوئی دنیا ہے یہ شعبدہ بازوں میں اس لے سے ترنم سے میں کیسے بہل جاؤں آواز نہیں باقی جب دل کے ہی سازوں میں سجدے ہوں نمائش کے پھر کیسے اثر ہوگا مالک پہ دعاؤں کا بندے کی نمازوں میں میت میں امیروں کی اک جشن سا رہتا ہے لوگوں کی کمی کیوں ہے غربا ...

    مزید پڑھیے

    انداز گفتگو کو بھی تکرار مت بتا

    انداز گفتگو کو بھی تکرار مت بتا ہرگز زباں کو تیر و تلوار مت بتا اس زندگی کو ڈر کے مصائب کی دھوپ سے راحت کی چھاؤں کے لئے غم خوار مت بتا زر زن زمین اصل میں تینوں ہیں فتنہ گر حرص و ہوس کا دل کو طلب گار مت بتا نادان دل کو ظرف سے خالی دماغ کو اپنا رفیق اپنا مددگار مت بتا انورؔ نشاط و ...

    مزید پڑھیے