ہے ذکر یہی ہر سو اب عمر درازوں میں
ہے ذکر یہی ہر سو اب عمر درازوں میں
کھوئی ہوئی دنیا ہے یہ شعبدہ بازوں میں
اس لے سے ترنم سے میں کیسے بہل جاؤں
آواز نہیں باقی جب دل کے ہی سازوں میں
سجدے ہوں نمائش کے پھر کیسے اثر ہوگا
مالک پہ دعاؤں کا بندے کی نمازوں میں
میت میں امیروں کی اک جشن سا رہتا ہے
لوگوں کی کمی کیوں ہے غربا کے جنازوں میں
کہہ دیں گے سر محشر اعضائے بدن انورؔ
اعمال خدا سے سب کچھ ہوگا نہ رازوں میں