Anjum Usman

انجم عثمان

انجم عثمان کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    سورج سے رس بھنور سے تو ساحل کشید کر

    سورج سے رس بھنور سے تو ساحل کشید کر صحرا کے ذرے ذرے سے محمل کشید کر ان رائیگانیوں سے کنارا نہ کر قبول لا حاصلی کے کرب سے حاصل کشید کر بھر تو ستارہ وار اڑانیں فلک کے پار اور لا مکاں سے پھر کوئی منزل کشید کر جذبوں کی حدتوں سے تو برفاب کھینچ لے مینائے عشق سے تو مرا دل کشید ...

    مزید پڑھیے

    ایک ملبوس دریدہ ہے مری وحشت ہجر

    ایک ملبوس دریدہ ہے مری وحشت ہجر ہوئی جاتی ہے حجابوں میں عیاں قامت ہجر اک تحیر سا تحیر ہے طلسم گاہ طلب ہے فسوں خیز کہیں اس سے سوا عشرت ہجر دامن درد میں سمٹا جو سکوت گریہ چشم بے آب میں پوشیدہ رہی عصمت ہجر تنگ دامانیٔ عالم میں سما ہی نہ سکی ہے سریر آرا کراں تا بہ کراں وسعت ...

    مزید پڑھیے

    جن کو توقیر رہ و رسم وفا یاد نہیں

    جن کو توقیر رہ و رسم وفا یاد نہیں کیا گلہ ان سے کریں جن کو خدا یاد نہیں جانے آئے بھی تھے خوشبو کے سندیسے مجھ کو جانے گزری تھی دبے پاؤں صبا یاد نہیں آپ نے ساتھ نبھانے کا کیا تھا وعدہ اس پہ کہتے ہیں وہ ہم سے بخدا یاد نہیں نہ رہا شمع فروزاں میں بھی وہ شعلۂ عشق اور پروانوں کو مرنے کی ...

    مزید پڑھیے

    عذاب راتوں خزاں رتوں کی کہانی لکھوں

    عذاب راتوں خزاں رتوں کی کہانی لکھوں میں تیری فرقت کی ساعتوں کو زبانی لکھوں بس ایک پاکیزہ ربط ہے روح و جاں کا تجھ سے تو پھر میں اس سارے واقعے کو گمانی لکھوں مجھے میسر ہیں سارے رشتے وہی نہیں ہے بھلا میں کس دل سے شوق کی رائیگانی لکھوں دعا سنا ہے فلک پہ جا کے اٹک گئی ہے سو تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر اس کو رہی اک سرگرانی اور بس

    عمر بھر اس کو رہی اک سرگرانی اور بس وہ تو کہیے تھی ہماری سخت جانی اور بس ایک مشت خاک بالآخر جو خاکستر ہوئی سو مآل زندگی ہے رائیگانی اور بس اک دیار بے اماں کی کج ادائی دم بدم اک شب ہجراں کی پیہم نوحہ خوانی اور بس ماہ و انجم حسن پرواز تخیل کے لیے رہ گزر کی دھول منزل کی نشانی اور ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    زمین کا بوجھ

    ازل سے ارتقا کی رہ گزر میں ہزاروں قافلے ہیں جادہ پیما ابد کی منزلوں میں چلتے چلتے بہت سے لوگ کھو کر رہ گئے ہیں غبار راہ ہو کر رہ گئے ہیں جنہیں سرمایۂ عرفاں ملا تھا جنہیں عقل جنوں ساماں ملی تھی وہ اپنی منزلوں کی سختیوں کو سفر کی ناسزا بد بختیوں کو ادائے تمکنت سے پی گئے ہیں اور ان ...

    مزید پڑھیے

    کشکول

    فلک نے آگ برسائی زمیں نے کاٹھ کے اوتار اگلے غموں کی بارشیں برسیں چراغوں نے لہو اگلا چمن کی کیاریاں سوکھیں گلوں کے جسم کمہلائے کئی کوٹھے سجے کتنے گھروں میں وحشتیں جاگیں ذرا سی جھنجھلاہٹ سب کے چہرے پر ابھر آئی مگر پھر جانے کیا گزری کہ سب نے ہاتھ میں کشکول تھامے اور ان لوگوں سے ...

    مزید پڑھیے