جن کو توقیر رہ و رسم وفا یاد نہیں
جن کو توقیر رہ و رسم وفا یاد نہیں
کیا گلہ ان سے کریں جن کو خدا یاد نہیں
جانے آئے بھی تھے خوشبو کے سندیسے مجھ کو
جانے گزری تھی دبے پاؤں صبا یاد نہیں
آپ نے ساتھ نبھانے کا کیا تھا وعدہ
اس پہ کہتے ہیں وہ ہم سے بخدا یاد نہیں
نہ رہا شمع فروزاں میں بھی وہ شعلۂ عشق
اور پروانوں کو مرنے کی ادا یاد نہیں
ایک امید مسیحائی بھی آخر کب تک
پھر نہ کہنا ہمیں آداب وفا یاد نہیں
شعلۂ گل سے فنا ہو گئی شبنم انجمؔ
میری ہستی ہوئی کیوں خاک ذرا یاد نہیں