زمین کا بوجھ
ازل سے ارتقا کی رہ گزر میں
ہزاروں قافلے ہیں جادہ پیما
ابد کی منزلوں میں چلتے چلتے
بہت سے لوگ کھو کر رہ گئے ہیں
غبار راہ ہو کر رہ گئے ہیں
جنہیں سرمایۂ عرفاں ملا تھا
جنہیں عقل جنوں ساماں ملی تھی
وہ اپنی منزلوں کی سختیوں کو
سفر کی ناسزا بد بختیوں کو
ادائے تمکنت سے پی گئے ہیں
اور ان کے عزم مستحکم کے شعلے
فضاؤں میں اجالا کر گئے ہیں
مگر کچھ لوگ انجمؔ اس جہاں میں
جنہیں ذوق جہاں بینی ملی تھی
جنہیں ادراک ہستی بھی ملا تھا
وہ اپنی بزدلی سے
قدم آگے بڑھا کر ڈر گئے ہیں
زمیں کا بوجھ تھے جو ننگ انساں
وہ سب جینے سے پہلے مر گئے ہیں