انجم لدھیانوی کی غزل

    اک جھلک تیری جو پائی ہوگی

    اک جھلک تیری جو پائی ہوگی چاند نے عید منائی ہوگی صبح دم اس کو رلا آیا ہوں سارا دن خود سے لڑائی ہوگی اس نے دریا کو لگا کر ٹھوکر پیاس کی عمر بڑھائی ہوگی کیس جگنو پہ چلے گا انجمؔ بستی اوروں نے جلائی ہوگی

    مزید پڑھیے

    ہزاروں سال چلنے کہ سزا ہے

    ہزاروں سال چلنے کہ سزا ہے بتا اے وقت تیرا جرم کیا ہے اجالا کام پر ہے پو پھٹے سے اندھیرا چین سے سویا ہوا ہے ہوا سے لڑ رہے بجھتے دیے نے ہمارا ذہن روشن کر دیا ہے وہ سورج کے گھرانے سے ہے لیکن فلک سے چاندنی برسا رہا ہے بدن پر روشنی اوڑھی ہے سب نے اندھیرا روح تک پھیلا ہوا ہے سنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خود سے ملنا ملانا بھول گئے

    خود سے ملنا ملانا بھول گئے لوگ اپنا ٹھکانا بھول گئے رنگ ہی سے فریب کھاتے رہیں خوشبوئیں آزمانا بھول گئے تیرے جاتے ہی یہ ہوا محسوس آئنے جگمگانا بھول گئے جانے کس حال میں ہیں کیسے ہیں ہم جنہیں یاد آنا بھول گئے پار اتر تو گئے سبھی لیکن ساحلوں پر خزانہ بھول گئے دوستی بندگی وفا و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2