Anjum Khayali

انجم خیالی

انجم خیالی کی غزل

    جان سے کیسے جایا جاتا ہے

    جان سے کیسے جایا جاتا ہے یہ ہنر کیا سکھایا جاتا ہے بول کر بولیاں پرندوں کی ان کو گھیرے میں لایا جاتا ہے بعض وعدے کیے نہیں جاتے پھر بھی ان کو نبھایا جاتا ہے میں نہ جاؤں کہیں تو پھر دیکھوں کس طرح میرا سایا جاتا ہے صبح کے بعد بھی جو روشن ہوں ان دیوں کو بجھایا جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    آزار مرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے

    آزار مرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے جو کرب نہاں ہے وہ نمودار نہ ہو جائے آواز بھی دیتی ہے کہ اٹھ جاگ میرے لعل ڈرتی بھی ہے بچہ کہیں بیدار نہ ہو جائے جب تک میں پہنچتا ہوں کڑی دھوپ میں چل کر دیوار کا سایہ پس دیوار نہ ہو جائے پردہ نہ سرک جائے کہیں اے دل بے تاب وہ پردہ نشیں اور پر اسرار ...

    مزید پڑھیے

    شب فراق اچانک خیال آیا مجھے

    شب فراق اچانک خیال آیا مجھے کہ میں چراغ نہ تھا اس نے کیوں جلایا مجھے کہاں ملا میں تجھے یہ سوال بعد کا ہے تو پہلے یاد تو کر کس جگہ گنوایا مجھے مجھے شبہ سا ہوا اس کی بے نیازی سے میں خود بنا ہوں خدا نے نہیں بنایا مجھے ملا بھی مجھ کو بچھڑ کر کہیں چلا بھی گیا اور اپنا نام بھی اس نے ...

    مزید پڑھیے

    شب کو اک بار کھل کے روتا ہوں

    شب کو اک بار کھل کے روتا ہوں پھر بڑے سکھ کی نیند سوتا ہوں اشک آنکھوں کے بیچ ہوتے ہیں میں انہیں کھیت کھیت بوتا ہوں میرے آنسو کبھی نہیں رکتے میں ہمیشہ وضو میں ہوتا ہوں ہوتا جاتا ہوں اس سخی کے قریب جیسے جیسے غریب ہوتا ہوں

    مزید پڑھیے

    اے شب غم جو ہم بھی گھر جائیں

    اے شب غم جو ہم بھی گھر جائیں شہر کس کے سپرد کر جائیں کتنی اطراف کتنے رستے ہیں ہم اکیلے کدھر کدھر جائیں ایک ہی گھر میں قید ہے سلطاں ہم بھکاری نگر نگر جائیں آنکھ جھپکیں تو اتنے عرصے میں جانے کتنے برس گزر جائیں صورت ایسی بگاڑ لی اپنی وہ ہمیں دیکھ لیں تو ڈر جائیں

    مزید پڑھیے

    کچھ تصاویر بول پڑتی ہیں

    کچھ تصاویر بول پڑتی ہیں سب کی سب بے زباں نہیں ہوتیں اپنی مٹھی نہ بھینچ کر رکھو تتلیاں سخت جاں نہیں ہوتیں لڑکیوں میں بس ایک خامی ہے یہ دوبارہ جواں نہیں ہوتیں

    مزید پڑھیے

    ہنسی میں ٹال تو دیتا ہوں اکثر

    ہنسی میں ٹال تو دیتا ہوں اکثر مگر میں خوش نہیں برباد ہو کر کوئی مرتا نہیں ضبط فغاں سے ذرا سا داغ پڑ جاتا ہے دل پر لکھی ہے ریگ ساحل پر جو میں نے وہ چٹھی پڑھ نہیں سکتا سمندر جہاں ہم ہیں وہاں سب دائرے ہیں کسی کا کوئی مرکز ہے نہ محور مجھے جانا ہے واپس بادلوں میں نہیں ہونا مجھے قطرے ...

    مزید پڑھیے

    جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں

    جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں ہم عمر کہاں گزارتے ہیں شامیں ہیں وہی وہی ہیں صبحیں گزرے ہوئے دن گزارتے ہیں اس نام کا کوئی بھی نہیں ہے جس نام سے ہم پکارتے ہیں گنتے ہیں تمام رات تارے ہم رات یوں ہی گزارتے ہیں پچکے ہوئے گال زرد چہرے جذبات بہت ابھارتے ہیں

    مزید پڑھیے

    آ ہجر کا ڈر نکالتے ہیں

    آ ہجر کا ڈر نکالتے ہیں رستے سے سفر نکالتے ہیں اب آنکھیں نہیں نکالی جاتیں آنکھوں سے نظر نکالتے ہیں پیڑوں میں رہ کے بھی پرندے پتے نہیں پر نکالتے ہیں افسوس کے غوطہ زن ہمارے اجرت پہ گہر نکالتے ہیں پتھروں میں کہیں تو ہے وہ صورت جو اہل ہنر نکالتے ہیں

    مزید پڑھیے

    کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

    کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے تری یاد آتی ہے اب کوئی کہانی بن کر یا کسی نظم کے سانچے میں ڈھلی آتی ہے اب بھی پہلے کی طرح پیش رو رنگ و صدا ایک منہ بند سی بے رنگ کلی آتی ہے چل کے دیکھیں تو سہی کون ہے یہ دختر رز روز اول سے جو بد نام چلی آتی ہے یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2