انجم عرفانی کی غزل

    ہوا کے ہاتھ میں یادوں کی جب پچکاریاں ہوں گی

    ہوا کے ہاتھ میں یادوں کی جب پچکاریاں ہوں گی بھڑک اٹھیں گی جو بھی راکھ میں چنگاریاں ہوں گی در و دیوار کو ہی گھر نہیں کہتے ہیں کیا جاؤں لچکتی شاخ گل ہوگی نہ ہنستی کیاریاں ہوں گی مرے آنگن میں برگ خشک دالانوں میں سناٹے کشادہ کمروں میں دیمک زدہ الماریاں ہوں گی ادھر سچ بولنے گھر سے ...

    مزید پڑھیے

    بڑی فرض آشنا ہے صبا کرے خوب کام حساب کا

    بڑی فرض آشنا ہے صبا کرے خوب کام حساب کا پھر اڑا کے لے گئی اک ورق مری زندگی کی کتاب کا کہوں کیا کہ دشت حیات میں رہا سلسلہ وہ سراب کا کبھی حوصلہ ہی نہ کر سکی مری آنکھ دریا کے خواب کا نہ عطائے دختر رز ہے یہ نہ ہے فیض ساقیٔ مے نفس جو چڑھے تو پھر نہ اتر سکے یہ نشہ ہے فن کی شراب کا سر راہ ...

    مزید پڑھیے

    اور کچھ یاد نہیں اب سے نہ تب سے پوچھو

    اور کچھ یاد نہیں اب سے نہ تب سے پوچھو میری آنکھوں سے لہو بہتا ہے کب سے پوچھو لمحہ لمحہ میں ہوا جاتا ہوں ریزہ ریزہ وجہ کچھ مجھ سے نہ پوچھو مرے رب سے پوچھو وہ تو سورج ہے ہر اک بات کا شعلہ ہے جواب روبرو آ کے کہو یا کہ عقب سے پوچھو یاد ہے قصۂ غم کا مجھے ہر لفظ ابھی حال جس درد کا جس رنج ...

    مزید پڑھیے

    رقص جنوں کی گرمئ تاثیر دیکھنا

    رقص جنوں کی گرمئ تاثیر دیکھنا کھلتا ہے کیسے حلقۂ زنجیر دیکھنا گھس گھس کے پتھروں کو بنایا ہے آئنہ دیکھیں وہ خواب ہم کو ہے تعبیر دیکھنا حربے سب ان کے ان کو ہی لوٹا دئے گئے حیرت سے بن گئے ہیں وہ تصویر دیکھنا لکھ دی زبان زخم میں روداد زندگی جسموں پہ اس کی شوخیٔ تحریر دیکھنا اب تو ...

    مزید پڑھیے

    لہجے کا رس ہنسی کی دھنک چھوڑ کر گیا

    لہجے کا رس ہنسی کی دھنک چھوڑ کر گیا وہ جاتے جاتے دل میں کسک چھوڑ کر گیا موج ہوائے گل سا وہ گزرا تھا ایک بار پھر بھی مشام جاں میں مہک چھوڑ کر گیا آیا تھا پچھلی رات دبے پاؤں میرے گھر پازیب کی رگوں میں جھنک چھوڑ کر گیا لرزہ گرفت لمس کی لذت سے بار بار بانہوں میں شاخ گل کی لچک چھوڑ کر ...

    مزید پڑھیے

    فصیل جسم پہ شب خوں شرارتیں تیری

    فصیل جسم پہ شب خوں شرارتیں تیری ذرا سی بھی نہیں بدلی ہیں عادتیں تیری یہ زخم زخم بدن اور لہو لہو یہ خواب کتاب جسم پہ اتری ہیں آیتیں تیری حصار آتش نمرود میں گھرا ہوں میں اب اتنی سست قدم کیوں ہیں رحمتیں تیری چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری یہ ...

    مزید پڑھیے

    تیشہ بکف کو آئینہ گر کہہ دیا گیا

    تیشہ بکف کو آئینہ گر کہہ دیا گیا جو عیب تھا اسے بھی ہنر کہہ دیا گیا سایہ ہے پیار کا نہ محبت کی دھوپ ہے دیوار کے حصار کو گھر کہہ دیا گیا ان کے ہر ایک گوشے میں صدیاں مقیم ہیں ٹوٹی عمارتوں کو کھنڈر کہہ دیا گیا خودداریٔ انا ہے نہ پندار زیست ہے شانوں کے سارے بوجھ کو سر کہہ دیا ...

    مزید پڑھیے

    جو نہ ہوں کچھ تشریح طلب کم ہوتے ہیں

    جو نہ ہوں کچھ تشریح طلب کم ہوتے ہیں اس کے اشارے سارے مبہم ہوتے ہیں ہر چہرہ ہر رنگ میں آنے لگتا ہے پیش نظر یادوں کے البم ہوتے ہیں ایسے میں آ جاتی ہے اپنی ہی یاد آئینہ ہوتا ہے اور ہم ہوتے ہیں بھولنے لگتے ہیں جگنو بھی اپنی راہ پلکوں پر جب قطرۂ شبنم ہوتے ہیں موج بلا جب سر سے گزرنے ...

    مزید پڑھیے

    یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے

    یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے کہ تیری آنکھیں جاگتی ہیں کس کے خواب کے لیے کتاب دل پہ لکھنے کی اجازت اس نے دی نہ تھی ہے سادہ آج بھی ورق یہ انتساب کے لیے مری نظر میں آ گیا ہے جب سے اک صحیفہ رخ کشش رہی نہ دل میں اب کسی کتاب کے لیے ہماری محضر عمل ہے زیر فیصلہ ابھی کھڑے ہیں سر ...

    مزید پڑھیے

    اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح

    اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح پھول پھینکا بھی مری سمت تو پتھر کی طرح اس کے لب کو مرے لب رہ گئے چھوتے چھوتے میں بھی ناکام چلا آیا سکندر کی طرح رنگ سورج کا سر شام ہوا جاتا ہے زرد اس کا بھی گھر نہ ہو ویران مرے گھر کی طرح درد اس عہد کی میراث ہے ڈرنا کیسا درد کو اوڑھ لیا کرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2