ہوا کے ہاتھ میں یادوں کی جب پچکاریاں ہوں گی
ہوا کے ہاتھ میں یادوں کی جب پچکاریاں ہوں گی
بھڑک اٹھیں گی جو بھی راکھ میں چنگاریاں ہوں گی
در و دیوار کو ہی گھر نہیں کہتے ہیں کیا جاؤں
لچکتی شاخ گل ہوگی نہ ہنستی کیاریاں ہوں گی
مرے آنگن میں برگ خشک دالانوں میں سناٹے
کشادہ کمروں میں دیمک زدہ الماریاں ہوں گی
ادھر سچ بولنے گھر سے کوئی دیوانہ نکلے گا
ادھر مقتل میں استقبال کی تیاریاں ہوں گی
ہم اہل دل کے جو کچھ دل میں ہے لب پر وہی باتیں
وہ اہل ہوش ہیں ان کے یہاں عیاریاں ہوں گی
ہمارا کیا چلے جائیں گے ہنستے شہر سے تیرے
ہمارے بعد دیواروں پہ خوں کی دھاریاں ہوں گی
سروں سے پر ہیں گڈھے خون کا چھڑکاؤ ہے ہر سو
وہ آئیں بے خطر راہوں میں اب ہمواریاں ہوں گی
میں شہر آیا بڑے ہی شوق سے لیکن خبر کیا تھی
یہاں آنکھیں بچھائے راہ میں بے کاریاں ہوں گی
وہ اٹھا کاروان صبح کی آمد کا شور انجمؔ
شریک بزم شب میں کوچ کی تیاریاں ہوں گی