انجم عرفانی کی غزل

    دھوپ آتی نہیں رخ اپنا بدل کر دیکھیں

    دھوپ آتی نہیں رخ اپنا بدل کر دیکھیں چڑھتے سورج کی طرف ہم بھی تو چل کر دیکھیں بات کچھ ہوگی یقیناً جو یہ ہوتے ہیں نثار ہم بھی اک روز کسی شمع پہ جل کر دیکھیں صاحب جبہ و دستار سے کہہ دے کوئی اس بلندی پہ وہ دیکھیں تو سنبھل کر دیکھیں کیا عجب ہے کہ یہ مٹھی میں ہماری آ جائے آسماں کی طرف ...

    مزید پڑھیے

    اب اس سادہ کہانی کو نیا اک موڑ دینا تھا

    اب اس سادہ کہانی کو نیا اک موڑ دینا تھا ذرا سی بات پر عہد وفا ہی توڑ دینا تھا مہکتا تھا بدن ہر وقت جس کے لمس خوشبو سے وہی گلدستہ دہلیز خزاں پر چھوڑ دینا تھا شکست ساز دل کا عمر بھر ماتم بھی کیا کرتے کہ اک دن ہنستے ہنستے ساز جاں ہی توڑ دینا تھا سفر میں ہر قدم رہ رہ کے یہ تکلیف ہی ...

    مزید پڑھیے

    اتنی ساری شاموں میں ایک شام کر لینا

    اتنی ساری شاموں میں ایک شام کر لینا سوگ چند لمحوں کا میرے نام کر لینا لوٹ کر یقیناً میں ایک روز آؤں گا پلکوں پہ چراغوں کا اہتمام کر لینا اک جنم کا میں پیاسا راستہ بھی ہے لمبا ایک قلزم مے کا انتظام کر لینا ہم فنا نصیبوں کو اور کچھ نہیں آتا خوں شراب کر لینا جسم جام کر لینا یہ ...

    مزید پڑھیے

    اب کسی اندھے سفر کے لیے تیار ہوا چاہتا ہے

    اب کسی اندھے سفر کے لیے تیار ہوا چاہتا ہے اک ذرا دیر میں رخصت ترا بیمار ہوا چاہتا ہے آخری قسط بھی سانسوں کی چکا دے گا چکانے والا زندگی قرض سے تیرے وہ سبکبار ہوا چاہتا ہے راز سر بستہ سمجھتے رہے اب تک جسے اہل دانش منکشف آج وہی راز سر دار ہوا چاہتا ہے دل وحشی کے بہلنے کا نہیں ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2