مطربہ
شب کی خموشیوں میں سوئی ہوئی ہے دنیا چپ چاپ ہیں ستارے خاموش آسماں ہے لیکن اے مطربہ تو بیدار ہے ابھی تک اک اضطراب دریا دل میں ترے نہاں ہے بستی سے دور آ کر بیٹھی ہے کیوں لب جو بربط لیے بغل میں کچھ گنگنا رہی تھی نغمہ سرائیوں پہ آمادہ تھی طبیعت آہٹ کو میری پا کر خاموش ہو گئی ہے آنے سے ...