Ameen Rahat Chugtai

امین راحت چغتائی

  • 1930

امین راحت چغتائی کی غزل

    ہو سکے تو دل صد چاک دکھایا جائے

    ہو سکے تو دل صد چاک دکھایا جائے اب بھری بزم میں احوال سنایا جائے ہائے اس جان تمنا سے نبھے گی کیسے ہم سے تو راز نہ اک روز چھپایا جائے اپنا غم ہو تو اسے کہہ کے سکوں مل جائے اس کا غم ہو تو کسے جا کے سنایا جائے رات بھر جن کی ضیا سے رہے روشن کمرے صبح دم ان ہی چراغوں کو بجھایا ...

    مزید پڑھیے

    منزل‌ شمس و قمر سے گزرے

    منزل‌ شمس و قمر سے گزرے جب تری راہ گزر سے گزرے شب کی گاتی ہوئی تنہائی میں کتنے طوفاں تھے جو سر سے گزرے وہیں پت جھڑ نے پڑاؤ ڈالا قافلے گل کے جدھر سے گزرے ہر طرف ثبت ہیں قدموں کے نشاں کوئی کس راہ گزر سے گزرے کس قدر خود پہ ہمیں پیار آیا آج جب اپنی نظر سے گزرے سرخیٔ گل سے بھی چونکے ...

    مزید پڑھیے

    جو دہائی دے رہا ہے کوئی سودائی نہ ہو

    جو دہائی دے رہا ہے کوئی سودائی نہ ہو اپنے ہی گھر میں کسی نے آگ دہکائی نہ ہو راستے میں اس سے پہلے کب تھا اتنا اژدحام جو تماشہ بن رہا ہے وہ تماشائی نہ ہو جو ملا نظریں چرا کر چل دیا اب کیا کہیں شہر میں رہ کر کبھی اتنی شناسائی نہ ہو اپنی ہی آواز پر چونکے ہیں ہم تو بار بار اے رفیقو بزم ...

    مزید پڑھیے

    جرس مے نے پکارا ہے اٹھو اور سنو

    جرس مے نے پکارا ہے اٹھو اور سنو شیخ آئے ہیں سوئے مے کدہ لو اور سنو کس طرح اجڑے سلگتی ہوئی یادوں کے دیے ہمدمو دل کے قریب آؤ رکو اور سنو زخم ہستی ہے کوئی زخم محبت تو نہیں ٹیس اٹھے بھی تو فریاد نہ ہو اور سنو خود ہی ہر گھاؤ پہ کہتے ہو زباں گنگ رہے خود ہی پھر پرسش احوال کرو اور ...

    مزید پڑھیے

    جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے

    جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے تری گلی سے جو گزرے تو لڑکھڑا کے چلے ہمیں بھی قصۂ دار و رسن سے نسبت ہے فقیہ شہر سے کہہ دو نظر ملا کے چلے کوئی تو جانے کہ گزری ہے دل پہ کیا جب بھی خزاں کے باغ میں جھونکے خنک ہوا کے چلے اب اعتراف جفا اور کس طرح ہوگا کہ تیری بزم میں قصے مری وفا کے ...

    مزید پڑھیے

    مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے

    مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے لپٹ کے مجھ سے مرے ساتھ وہ بھی جل جائے میں آگ ہوں تو مرے پاس کوئی کیوں بیٹھے میں راکھ ہوں تو کوئی کیوں کریدنے آئے بھرے دیار میں اب اس کو کس طرح ڈھونڈیں ہوا چلے تو کہیں بوئے ہم نفس آئے یہ رات اور روایات کی یہ زنجیریں گلی کے موڑ سے دو لوٹتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2