Ameen Rahat Chugtai

امین راحت چغتائی

  • 1930

امین راحت چغتائی کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول

    کیا بتائیں کہاں کہاں تھے پھول خاک اڑتی ہے اب جہاں تھے پھول بھیگی بھیگی سی دیکھ کر کلیاں مسکرائے جہاں جہاں تھے پھول دل میں گلشن کھلا گئے کیا کیا یوں تو دو دن کے میہماں تھے پھول جب خزاں آئی جاں پہ کھیل گئے محرم جہد بے کراں تھے پھول جس نے توڑا اسی کو رنج ہوا مثل پیمانۂ مغاں تھے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کوہ نارسا بن کر بھرم رکھا ترا

    دیکھ کوہ نارسا بن کر بھرم رکھا ترا میں کہ تھا اک ذرۂ بیتاب اے صحرا ترا کون ساقی کیسا پیمانہ کہاں صہبائے تیز آبرو یوں رہ گئی ہے سر میں تھا سودا ترا سب گریباں سی رہے ہیں صحن گل میں بیٹھ کر کون اب صحرا کو جائے، ہے کہاں چرچا ترا اب عناصر میں توازن ڈھونڈنے جائیں کہاں ہم جسے ہم راز ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ایک سزا ہو جیسے

    زندگی ایک سزا ہو جیسے کسی گنبد کی صدا ہو جیسے رات کے پچھلے پہر دھیان ترا کوئی سائے میں کھڑا ہو جیسے آم کے پیڑ پہ کوئل کی صدا تیرا اسلوب وفا ہو جیسے یوں بھڑک اٹھے ہیں شعلے دل کے اپنے دامن کی ہوا ہو جیسے رہ گئے ہونٹ لرز کر اپنے تیری ہر بات بجا ہو جیسے دور تکتا رہا منزل کی ...

    مزید پڑھیے

    روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی

    روز جو مرتا ہے اس کو آدمی لکھو کبھی تیرگی کے باب میں بھی روشنی لکھو کبھی سانس لینا بھی مقدر میں نہیں جس عہد میں بیٹھ کر اس عہد کی بھی ان کہی لکھو کبھی درد دل درد جگر کی داستاں لکھی بہت نان خشک و آب کم کو زندگی لکھو کبھی مصلحت پر بھی کبھی ہوتے رہے قرباں اصول ان اصولوں کو بھی ان کی ...

    مزید پڑھیے

    جب کوئی بھی خاقان سر بام نہ ہوگا

    جب کوئی بھی خاقان سر بام نہ ہوگا پھر اہل زمیں پر کوئی الزام نہ ہوگا کل وہ ہمیں پہچان نہ پائے سر راہے شاید انہیں اب ہم سے کوئی کام نہ ہوگا پھر کون سمجھ پائے گا اسرار حقیقت جب فیصلہ کوئی بھی سر عام نہ ہوگا یہ عہد رواں خاک نشاں دھیان میں رکھو پھر ڈھونڈو گے کس کو جو کوئی نام نہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    گلیڈیولا

    مری کی الھڑ پہاڑیوں کے چبوتروں پر ہری ہری نرم لابنی لابنی گھاس سے سر کشیدہ شاخیں ہتھیلیوں پر سجائے سیندھوری گل ادا سے فضائے خوش رنگ میں لہک کر ہر ایک رہرو کے دامن دل کو کھینچتی ہیں صبا کی سرگوشیاں مسلم یہ کیسے گل ہیں کہ ان کی خوشبو سے چونکتا بھی نہیں ہے کوئی مگر انہیں دیکھ کر ...

    مزید پڑھیے

    آتش دان

    کتنی یادیں جلا چکا ہوں میں کتنے ارماں بجھا چکا ہوں میں کرسیاں کھینچ کر مرے نزدیک اپنے ماضی پہ سوچنے والے داستاں بن رہے ہیں ماضی کی کٹکٹاتے ہوئے وہ چلغوزے چھیل کر منہ میں ڈالتے جائیں اور شعلوں سے کھیلتے جائیں یاد آئیں جو شعلہ رو لمحے جھریوں سے اٹے ہوئے چہرے ایک پل کے لیے دمک ...

    مزید پڑھیے